بیویاں غیر ہوتی ہیں اور بچے اپنا خون


کل رات میں نے جھنجھلا کے وٹس ایپ پہ اپنی غلط روسی میں پیغام لکھا تھا: ”یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے آئے آج دسواں روز ہے، معاملہ نہ ادھر ہو رہا ہے نہ ادھر۔ اگر تم نے طلاق کی درخواست دے دی ہے تو بتاو، میں اپنا اسباب اٹھا لے جاتا ہوں اور اگر نہیں دی تو بیٹھ کر بات کرتے ہیں“۔

پیغام بھیج کے میں سو گیا تھا۔ صبح دیکھا تو جواب موصول ہوا ہوا تھا، ”مجھے کسی معاملے پر بات نہیں کرنی۔ ہم ابھی ماسکو کے راستے میں ہیں۔ کل سہ پہر کو اپنی چیزیں لینے آ سکتے ہو“۔

میں اسے اکیلے میں ملنا چاہتا تھا مگر کل تو اس کا بیٹا بھی ہوگا جو اسے لے کے پہنچ رہا ہے۔ مخمصے میں تھا، جاوں نہ جاوں۔ روسی نوجوان جب بدتمیزی پر اترے ہوں تو بے حد کرتے ہیں۔ نینا آخر ساشا کی ماں ہے، میری تو بس بیوی ہے۔ متذبذب ہوا بچوں کے ساتھ وقت بتا رہا تھا۔ انہیں بتایا کہ مجھے آج ماما کی طرف جانا ہے۔ سات سال کی بچی نے پوچھا ساشا آپ سے جھگڑے گا۔ وہ کیسا ہے؟ میں نے ہنستے ہوئے کہہ دیا کہ باکسر ہے۔ میری بچی کو دھڑکا لگ گیا، منتیں کرنے لگی، آپ نہ جائیں۔ دس سال کا بیٹا بولا، میں آپ کے ساتھ جاوں گا۔ میں نے کہا چلو ابھی نہیں جاتا جب تمہاری ماں کام سے لوٹے گی تو چلا جاوں گا۔ بچے خوش اور مطمئن ہو گئے۔

اتنے میں ساشا کا فون آ گیا، مرزا تم سامان اٹھانے کتنے بجے آو گے، مجھے رات ماما کو ساتھ لے جانا ہے۔ میں نے پوچھا، تمہیں کتنے بجے نکلنا ہے، کہنے لگا تم بتاؤ اس حساب سے منصوبہ بناوں گا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، تو شام چھ بجے۔ بولا کچھ پہلے ممکن نہیں؟ اچھا بس گھنٹے بعد نکلتا ہوں، میں نے کہا۔ اس نے کہا کہ سامان کے لیے تو گاڑی چاہیے ہوگی۔ میں نے کہا کہ مجھے ابھی سامان نہیں لینا، بس ہیلتھ انشورنس کارڈ اور کچھ اور چیزیں لینی ہیں۔ پھر تو نہ ہی آو، یہ کہہ کے فوراً کہا چلو آ جاؤ انتظار کر رہے ہیں۔

ساشا جب چوبیس برس کا تھا تو ایک رات پیے ہوئے آیا، میں کاریڈور میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ سرخ ہوئی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا، اگر تم نے میری ماں کو کبھی دکھ دیا تو اپنے ہاتھ سے اپنی قبر کھودو گے۔ میں نے کش لگاتے ہوئے اسے ہنس کے کہا تھا، جب مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں خود قبر کیوں کھودوں گا۔ اگلے روز میں نے سرزنش کی تھی اور اس نے معذرت کر لی تھی۔

اب وہ چوالیس برس کا ہے مگر نینا تو اس کی ماں ہے ہی۔ بچوں سے کہا دروازہ میرے یا اپنی ماں کے لیے کھولنا، مجھے جانا ہوگا۔ نکلنے لگا تو بیٹا بیٹی دونوں نے ہمزبان ہو کے کہا، پاپا اپنی حفاظت کرنا۔ جس گھر میں بائیس برس رہا ہوں، اس کی طرف جا رہا تھا مگر بددلی کے ساتھ، بڑی غیریت کے ساتھ۔ چابی تو پاکستان میں ہی کھو گئی تھی۔ نیچے سے فلیٹ کا نمبر دبا کے بیل دی تو ساشا ہی نے کہا ہاں۔ کھولو ساشا۔

آٹھویں فلور پہ پہنچا۔ بلڈنگ کی مرمت و تزئین ہو چکی تھی۔ فلیٹ نمبر 56 کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، میں داخل ہوا۔ ہائی ساشا کہا وہ ہائی کہہ کے کمرے میں دیوان پے لیٹ کے فون میں مصروف ہو گیا۔ میں نے بوٹ کے تسمے ڈھیلے کرتے ہوئے دیکھا تو نینا کچن میں دیوان کے ایک سرے پر بیٹھی، مربے کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے چائے پی رہی تھی۔

جوتے اتار کے چپل پہنے بن میں کچن میں داخل ہوا اور کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ اور اس کے پاس جا کر اس کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ دیاْ۔ جب مجھے پاکستان سے لوٹنا ہوتا وہ میرے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ پاکستانی پکوان تیار کرکے رکھتی تھی۔ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑاتا، گلے لگاتا، گال پہ چومتا اور سوٹ کیس سے سب کچھ نکال کر ڈھیر کرکے نہانے چلا جاتا مگر آج نہ سوٹ کیس تھا، نہ ڈبہ اور نہ وہ وفور۔

بولی میرے پاس کھلانے کو کچھ نہیں۔ یہ مربہ ہے، چائے دوں۔ ہاں دے دو، میں نے کہا۔ پھر یاد کرکے بولی تلے ہوئے آلو بھی ہیں، دوں۔ ہاں چلو وہ ہی دو، یہ کہہ کے میں ہاتھ دھونے چلا گیا۔ کچن میں آ کے کہا، تمہارا یا میرا کوئی تولیہ۔ پھر خود ہی کمرے میں گیا، الماری کھولی، چھوٹا تولیہ نکالتے ہوئے اور ساشا سے پوچھا، بچے کیسے ہیں حالانکہ اس کی ایک ہی بیٹی ہے۔ فون سے نظریں اٹھائے بغیر بولا، میرے بچے ٹھیک ہیں۔ تمہارے بچے کیسے ہیں۔ ٹھیک ہیں، یہ کہہ کر ہاتھ پونچھتا کچن میں جا رہا تھا کہ دیکھا تو میرا اضافی سامان، جوتے ڈبوں میں بند قرینے سے ایک جانب رکھے تھے۔

آلو گرم ہو رہے تھے۔ نینا نے روٹی کاٹ دی تھی اور اس کے ٹکڑوں کو مکھن لگا رہی تھی۔ میں نے کہا کہ تم نے میرا سامان باندھ دیا ہے، کہنے لگی ہاں، کپڑے ٖنگے ہوئے ہیں اور کتابیں بھی اپنی جگہ پر ہیں۔ پھر فرائی پان سے آلو پلیٹ میں ڈال کے دیے اور چائے بھی۔ چائے میں چمچہ چلا کے پوچھا، شکر ڈال دی ہے۔ کہا نہیں، نہیں ڈالی۔ میرے منہ سے نکلنے لگا تھا، زہر تو نہیں ڈال دیا پھر زبان دانتوں تلے دبا لی۔

آلو کچھ سخت تھے۔ آلو خراب ہیں، میں نے کہا۔ خران نہیں ابھی تیار نہیں ہوئے، قبل ازوقت نکلے ہوئے ہیں کھیت سے۔ میں نے مکھن لگی روٹی اور کچھ آلو کھاتے ہوئے کہنا شروع کر دیا، اگر اتفاقاً مجھ سے چابیاں نہ کھو جاتیں، میں یہیں ہوتا۔ تم مجھے اضافی چاپی دو۔ تم یہاں نہ ہوتے۔ چابی بھی نہیں دوں گی۔ مجھے یہاں رہ کے اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ مکمل کرنا ہے۔ میں نے اس فلیٹ میں بیٹھ کر چار کتابیں لکھی ہیں۔ تم نے ہی لکھنے میں معاونت کی تھی۔ اسے رونا آنے لگا تو وہ باتھ روممیں چلی گئی، اس نے اپنا رونا کبھی دکھائی نہیں دینے دیا۔

لوٹی تو کہنا شروع کیا، دیکھو میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا البتہ سچ چھپایا تھا۔ یاد ہے میں نے کہا تھا دونوں ہاتھون کی انگلیاں پکڑے دو بچے لاوں گا جو تمہیں ماما ماما پکارتے آئیں گے۔ تم نے جب بھی کہا کوئی لگتی تمہاری رکھیل ہے تو تم سے کہا، خبردار رکھیل مت کہنا تو تم نے کہا چلو دوسری بیوی سہی۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ ہاں ہے کر لو جو کرنا ہے۔

بارہ برس اگر میں نے تم سے یہ حقیقت مخفی رکھی اور اس نے بھی کسی طرح کی کوئی مداخلت نہیں کی تو اس لیے کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے، میں نے بولنا جاری رکھا۔ تم نہیں جانتیں کہ میں کتنے کرب سے گزرا ہوں اس عرصے میں۔

جب سب سے چھوٹا بچہ پیدا ہوا تھا تو اس کا وزن کم تھا اور وہ آکسیجن کی کمی کا شکار تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کی زندگی سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا تھا اور انکیوبیٹر میں رکھ دیا تھا۔ وہ اس میں اکیس روز رہا تھا۔ میں اس کا حال پوچھنے وہاں بالکل نہیں گیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2