پاکستان کا دیوالیہ ہی عمران خان کا پرچہ ترکیب استعمال ہے


گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی زیر تفتیش سیاست دان کا انٹرویو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب اس فیصلہ سے پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی یعنی پیمرا کو مطلع کیا جائے گا تاکہ وہ حکومت کی منشا اور صوابدید کے مطابق قومی ٹیلی ویژن نشریات کو کنٹرول اور محدود کرنے کا اقدام کرے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت براہ راست سنسر شپ کے حوالے سے اس سے بدتر فیصلہ نہیں کر سکتی۔

اس دوران ملک کے اٹارنی جنرل انور منصور علی خان کا ایک انٹرویو نشر ہؤا ہے جس میں انہوں نے مریم نواز کی طرف سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو پر تبصرہ کیا ہے۔ انہیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ کسی پرائیویٹ شخص نے ایک دوسرے شخص کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنائی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس پر مملکت کو حرکت میں آنا چاہیے اور ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو اس جرم میں ملوث ہیں۔

اگرچہ اٹارنی جنرل ہی ملک میں قانون نافذ کرنے اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے والوں کے خلاف اقدام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر مریم نواز کی جاری کردہ ویڈیو ’غیر قانونی اور ایک فرد کی پرائیویسی پر حملہ‘ کے مترادف ہے تو اس شخص کو ’انصاف‘ فراہم کرنے کے لئے ملک کا قانون نافذ کرنے کے لئے وہ خود کیا اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

معاملہ کا یہ پہلو دلچسپ بھی ہے اور تعجب خیز بھی کہ انور منصور خان نے اس پیچیدہ اور مشکل مسئلہ کو ایک سادہ قانون شکنی تو قرار دیا لیکن وہ خود یہ حوصلہ نہیں کر پائے کہ فوری طور پر پولیس حکام کو ایف آئی آر درج کرنے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے جنہوں نے جج ارشد ملک کی ویڈیو تیار کی اور پھر اسے نشر کر کے بطور شہری ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔ اس ویڈیو کے متن کی تردید کرتے ہوئے جج ارشد ملک نے اپنی پریس ریلیز میں بھی یہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا ’مشورہ‘ دیا تھا لیکن وہ بطور جج یا بطور متاثرہ شہری مدعی بن کر پولیس کے پاس نہیں گئے تاکہ یہ ویڈیو نشر کرنے پر مریم نواز اور ان تمام دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی جو اس ’غیر قانونی‘ ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث ہیں۔

اب مریم نواز نے جج ارشد ملک کی دو مزید ویڈیو جاری کی ہیں۔ اس طرح جج صاحب اور اٹارنی جنرل کا ’مقدمہ‘ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ اہل پاکستان کو انتظار کرنا چاہیے کہ ملکی عدالتی تاریخ میں دباؤ میں فیصلہ کا ’اعتراف‘ کرنے والے جج کا معاملہ نمٹانے کی بجائے ملک کے اٹارنی جنرل پہلے غیرقانونی ریکارڈنگ کرنے والے افراد کو کیفر کردارتک پہنچانے کا اقدام کریں۔

حیرت تو اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ حکومت اور اٹارنی جنرل کو یہ پریشانی تو نہیں ہے کہ ملک میں احتساب کے معاملات دیکھنے والے ایک جج پر تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف، دباؤ میں فیصلہ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جج صاحب نے اس ویڈیو میں سامنے لائے گئے مؤقف کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا دعویٰ ضرور کیا ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی ریکارڈنگ کرنے والے اور شریک گفتگو شخص کو جاننے اور متعدد بار اس سے ملاقات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نہ اس معاملہ کو اہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ اس متنازعہ ویڈیو کی وجہ سے ملک میں احتساب اور انصاف کا پورا نظام کٹہرے میں کھڑا ہو چکا ہے۔ وہ پورے عدالتی نظام کو اس الزام سے بچانے کے لئے کوئی اقدام تجویز کرنے یا مستقبل میں اس قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کی بجائے الزام کے جواب میں الزام عائد کر کے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا یہ مؤقف اور طرز عمل وفاقی کابینہ کے اس فیصلہ سے ملتا جلتا ہے جس میں گزشتہ روز ’زیر حراست‘ سیاست دانوں کے انٹرویو نشر کرنے کا سلسلہ بند کرنے کے لئے پیمرا کو ’حکم‘ جاری کیا گیا ہے۔ اس طرح کابینہ نے بھی مشکل اور پیچیدہ مسائل کا آسان راستہ تلاش کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ وہ سیاسی مخالفین کی دلیل یا شکایت کا جواب دینے کی بجائے ان کی آواز بند کرنے کو ہی آسان ترین حل سمجھتی ہے۔ کیوں کہ اس کے خیال میں اسی طرح قومی مفاد کا بہترین طریقے سے تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

یعنی ملک کے میڈیا کو ’جرم کرنے والوں‘ کو شہرت دینے کا مرتکب قرار دے کر خبر اور رائے عام کرنے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جائے۔ یوں لگتا ہے کہ معاشی بحران میں گھری حکومت اصل مسائل پر توجہ دینے اور ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے، سیاسی معاملات میں نکتہ رسی اور تصادم کی صورت حال پیدا کرکے مسلسل عوام کی ہمدردی جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی لئے حکومت کو نہ تو اس بات کی پرواہ ہے اور نہ ہی شاید اسے اس بات کا ادراک ہے کہ براہ راست ٹکراؤ کی حکمت عملی سے اگر دو سیاسی خاندانوں کا خاتمہ کر بھی دیا گیا تو بھی ملک میں تقسیم، باہمی عدم اعتماد، ذہنی خلفشار اور نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جائے گا اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی ملک کے نظام کو گھن کی طرح کھا جائے گی۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن بھی اس وقت تصادم اور براہ راست ٹکراؤ ہی کی پالیسی پر گامزن ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali