پُرامن جمہوری افغانستان: نئی امیدیں


قطر کے دارالحکومت دوحہ سے مثبت خبر یہ آئی ہے کہ تمام اختلافی امور پر سمجھوتہ طے پانے کے بعد امریکہ اور طالبان آپس میں کبھی جنگ نہیں لڑیں گے۔  انٹرا افغان امن کانفرنس میں افغان طالبان خواتین کو حقوق دینے اور تشدد میں کمی لانے پر بھی رضا مند ہو گئے ہیں۔  اسکولوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کرنے کے ساتھ عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی لانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔  افغانستان میں اس وقت جدت اور قدامت کی دو سوچیں برسرِ پیکار ہیں جن کی جڑیں نائن الیون اور ماقبل کے حالات میں پیوست ہیں۔

  افغان سرزمین سوویت مسلح مداخلت سے بھی پہلے اُس وقت سے میدان کا ر زار بنی ہوئی ہے جب سردار داؤد نے غیر ملکی دورے پر گئے ہوئے اپنے قریبی عزیز افغان کنگ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر عنانِ اقتدار پر جبری قبضہ کر لیا تھا۔ پھر 27 دسمبر 1979 ء کو جب سوویت افواج اس جنگجو خطے میں داخل ہوئیں تو اس میں بدامنی کی بہت سی نئی الائشیں ملتی چلی گئیں۔  افغان سرزمین پر براہِ راست سوویت قبضہ و کنٹرول نہ تو مغرب کو قبول تھا اور نہ پاکستان اس کے لیے آمادہ ہو سکتا تھا۔

 پاکستان کے وجود سے مغربی قوتوں کی دلچسپی و قربت کی بنیادی و ٹھوس دلیل ہی سوویت یلغار کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہونا تھا۔ ماقبل سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے، بہر حال اس خونی معرکے کے بعد جب سوویت انخلا اور اس سے بڑھ کر سوویت انہدام ہو گیا تو گویا مغرب نے اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا لیکن اس تباہ کن و ہولناک جنگ و جدل کے مابعد جو زہریلے اثرات نکلنا تھے، وہ نائن الیون کے افسوسناک سانحہ تک چلے گئے۔

سوویت انہدام کے بعد امریکی قیادت میں اتحادی فورسز افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے واپس چلی گئیں تو یہاں ایک خانہ جنگی کی صورت پیدا ہو گئی جس کے بطن سے طالبان جنگجووں کا ظہور ہوا جن کی شدت پسندانہ سوچ نائن الیون پر منتج ہوئی تو امریکہ اور اتحادی فورسز کو مسئلے کی سنگینی کا احساس و ادراک ہوا نتیجتاً نہ صرف یہ کہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ امریکہ و مغربی جمہوری قوتوں کی کاوشوں سے افغانستان کو ایک جدید آئینی و جمہوری مملکت بنانے کے لئے جیسا تیسا ایک منتخب سیٹ اپ قائم کیا گیا لیکن گزشتہ اٹھارہ برسوں سے مسئلہ یہ درپیش ہے کہ افغان سماج میں موجود بنیاد پرست و روایتی سوچ کے حاملین بھی ایک طاقت کی صورت نہ صرف موجود چلے آرہے ہیں بلکہ ان کی شدید مزاحمت روایتی افغان سماج میں خون خرابے کا باعث بنتی چلی آ رہی ہے۔  جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا امریکن فورسز کا یکطرفہ انخلا نائن الیون سے پہلے کی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔

طالبان کے علاوہ بھی کئی دہشت گردی کی سوچ کے حاملین گروہ افغان سماج میں موجود رہے ہیں، امریکہ اور قومی جمہوری سیٹ اپ کو مضبوط دیکھنے والے اتحادیوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ ”بائی ہک یا بائی کرک“ اس مزاحمت یا دہشت گردی کا جتنی جلدی خاتمہ ممکن ہو، کیا جائے۔  اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس مزاحمت کی بھاری قیمت چکا رہا ہے، بدلے ہوئے اندرونی اور خطے کے علاقائی حالات میں ٹرمپ انتظامیہ اس سے جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن شتابی میں خرابی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔

 افغانستان کے تاریخی، جغرافیائی، مذہبی و تہذیبی پس منظر میں محض طاقت کے زور سے مزاحمت کو کچلنا ناممکن نہیں تو بھی جان جوکھوں کا مہنگا سودا ہے لہٰذا چھڑی اور گاجر کا فارمولا چلایا جاتا رہا ہے جس کے تحت گلبدین حکمت یار جیسے جنگجو اور ان کی حزبِ اسلامی کو کچھ شرائط منوا کر نئے سیٹ اپ میں ایک پارٹنر کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا، اب یہی کاوش طالبان فورسز کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔  الحمدللہ تازہ دوحہ اعلامیہ اسی کاوش کا ثمر ہے۔

امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کی رہنمائی میں ماقبل ہفتہ بھر طالبان سے اپنے طور پر متنازع فیہ امور زیر بحث لائے گئے اور پھر خود پس منظر میں رہ کر جرمنی اور قطری نمائندوں کی رہنمائی میں طالبان اور افغان اشرافیہ کے دو روزہ باضابطہ مذاکرات کروائے گئے جن میں افغان حکومت کے نمائندے بھی شامل تھے اور یہ امریکہ کی بڑی کامیابی تھی کہ اس نے نہ صرف افغان معززین میں حکومتی نمائندوں کی شرکت کا مسئلہ طالبان سے منوایا جن سے بات چیت پر طالبان قطعی آمادہ نہ تھے بلکہ اپنے دیگر بہت سے بنیادی مطالبات بھی منوا لیے۔

بدلے میں طالبان نے کیا حاصل کیا ہے؟ سب سے پہلے تو طالبان کا بڑا مطالبہ مان لیا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کا فوری چارٹ دے گا، دوسرا خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور آئینی و قانونی معاملات کے فیصلے اسلامی فریم ورک کی مطابقت میں ہوں گے، تیسرا ستمبر میں جو افغان صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، طالبان بھی دہشت گردی سے ناتا توڑ کر ان میں حصہ لے سکیں گے نیز وہ قومی سیاسی دھارے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے تمام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔  ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب یہ ملا عمر یا مولانا سمیع الحق کے طالبان نہیں رہیں گے بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمہوری سوچ کے حاملین بھی قومی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں گے۔

امریکہ کی اپنی بھی بوجوہ یہ شدید خواہش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو قیامِ امن کی گارنٹی لیتے ہوئے اور بہتر جمہوری سیٹ اپ کے قیام کی شرط پر وہ نہ صرف یہاں سے کوچ کرے بلکہ اپنی توانائیاں زیادہ الجھے ہوئے اور پیچیدہ ایرانی مسئلے پر مرکوز کرے۔  پاکستان کو بھی سمجھایا جا چکا ہے کہ ادھر اس امن عمل کے برعکس کوئی چھیڑ خانی نہیں کرنی۔ 70 رکنی افغان زعما کے وفود اور طالبان کے مذاکراتی روڈ میپ میں جو خوش آئند امور طے ہوئے ہیں ان کے مطابق اقوامِ متحدہ، علاقے کے ممالک، امریکہ اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کا اہتمام کرنے والوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ قیامِ امن کے لیے تمام فریق مثبت کردار ادا کریں گے۔

پائیدار امن کا قیام افغان عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ اب افغانستان میں دوبارہ نئی لڑائی کی اجازت نہیں دی جائے گی، تمام عوامی اداروں کے تحفظ کو یقینی اور مضبوط بنایا جائے گا۔ بدلہ لینے یا دھمکیاں دینے کا وتیرہ چھوڑ دیا جائے گا۔ تمام گرفتار ضیعف، معذور اور بیمار افراد کو رہا کر دیا جائے گا، ہمسایہ ممالک سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رہیں اور طے شدہ امن نکات کی حمایت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).