پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا دورۂ امریکہ کس نوعیت کا ہو گا؟


عمران خان

عمران خان کا دورہ امریکہ سفارتی آداب کے تحت ’ورکنگ وزٹ‘ کی کیٹگری میں آئے گا۔ اس کیٹگری کے تحت عموماً مہمان سربراہ مملکت کو امریکی صدر کے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت نہیں دی جاتی

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کا پہلا دورۂ امریکہ آج کل ملک میں اور ملک سے باہر خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اور اس کی بنیادی وجہ وہ ابہام تھا جو منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عمران خان کے دورہ وائٹ ہاؤس کی تصدیق نہ کرنے کے بعد پیدا ہوا تھا۔

تاہم چند ہی گھنٹے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس آمد پر وزیراعظم پاکستان کو خوش آمدید کہیں گے اور ملاقات کے دوران ’انسدادِ دہشت گردی، دفاع، تجارت اور توانائی‘ سمیت دیگر معاملات زیرِ غور آئیں گے۔

منگل کی شام عمران خان کے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس دورے کے دوران سرکاری وسائل کا بےجا استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ وہ فائیو سٹار ہوٹل کے بجائے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔

یہ عمران خان کا امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔

عمران خان کا دورۂ امریکہ کس نوعیت کا ہو گا؟

بی بی سی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کے اس دورے کی نوعیت کیا ہو گی اور امریکی قوانین اور سفارتی آداب کے تحت پاکستانی وزیراعظم کو امریکہ میں کس نوعیت کا پروٹوکول میسر ہو گا۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے سفارتی دورے جن کی دعوت وائٹ ہاؤس کی جانب سے دی جاتی ہے، ان کی نوعیت امریکہ محکمہ خارجہ ہی طے کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی سفارتی آداب اور قوانین کے تحت اس دورہ کی کیٹگری ’ورکنگ وزٹ‘ ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس زمرے میں عموماً مہمان کو امریکی صدر کے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت شامل نہیں ہوتی جبکہ رہائش کا بندوبست بھی اپنے خرچے پر کرنا ہوتا ہے، تاہم اس کا انحصار وائٹ ہاؤس پر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عموماً امریکی صدر سے یہ ملاقات گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے تک کی ہو سکتی ہے۔

نجم الدین شیخ کے مطابق اگر وائٹ ہاؤس چاہے تو ملاقات کے بعد مہمان کو دوپہر کے کھانے کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے تاہم تب بھی یہ امریکی سفارتی آداب کے مطابق ’ورکنگ وزٹ‘ ہی ہو گا۔

ٹرمپ

’وائٹ ہاؤس میں موجود ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی محکمہ خارجہ میں رابطے کا فقدان ہے‘

واضح رہے کہ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ عمران خان پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ جبکہ ان کا عملہ تھری سٹار ہوٹل میں قیام کرے گا۔

محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس میں رابطے کا فقدان؟

منگل کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عمران خان کے دورہ امریکہ پر لاعلمی کے اظہار پر بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا اور اس کو غیر معمولی کہا جا سکتا ہے مگر اس میں پاکستان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت واشنگٹن میں کچھ ایسی چیزیں ہو رہیں ہیں جو کہ عموماً نہیں ہوتیں کیونکہ وائٹ ہاؤس میں موجود ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی محکمہ خارجہ میں رابطے کا فقدان ہے۔

ان کے مطابق اس کا حالیہ ثبوت صدر ٹرمپ کا وہ بیان بھی ہے جس میں انھوں نے برطانیہ کے سفیر سے بات نہ کرنے کا کہا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ان کے پاس اس طرح کی کوئی ہدایات نہیں آئی اور یہ کہ امریکہ کے برطانیہ سے گہرے تعلقات ہیں جب تک ہمارے پاس باضابطہ حکم نہیں آتا تب تک ہم بات چیت جاری رکھیں گے۔

نجم الدین کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ واضح کرتا ہے کہ دونوں جانب سے موجود رابطے کے فقدان میں پاکستان پھنس گیا ہے۔

سفارتی دورے کتنی اقسام کے ہوتے ہیں؟

نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ہم امریکہ کی بات کریں تو یہاں سفارتی دوروں کی درجہ بندی میں پروٹوکول کے حساب سے سب سے بڑا دورہ ’سٹیٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو امریکی صدر کی جانب سے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔

’انھیں سرکاری مہمان کا درجہ دیتے ہوئے سرکاری گیسٹ ہاؤس، جسے بلیئر ہاؤس کہا جاتا ہے، میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ دورہ تین سے چار روز کا ہوتا ہے جس میں عشائیہ اور کانگریس کے اراکین سے ملاقاتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔‘

عمران خان

پاکستان کے دورے پر آنے والے سربراہانِ مملکت کے دوروں کو زیادہ تر سرکاری دورے کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس کے تمام تر اخراجات حکومتِ پاکستان برداشت کرتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے نمبر پر’آفیشل وزٹ‘ ہوتا ہے اور اس میں بھی امریکی صدر کی جانب سے مہمان سربراہ مملکت یا حکومتی سربراہ کو دورے کی دعوت دی جاتی ہیں اور انھیں سرکاری مہمان خانے میں رہائش دی جاتی ہے جبکہ متعدد ضیافتوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

تیسرے نمبر پر ’آفیشل ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات کے ساتھ ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت شامل ہوتی ہے۔ جبکہ اس میں مہمان کو سرکاری گیسٹ ہاوس ’بلیئر ہاوس‘ میں قیام کی سہولت اس کی دستیابی کی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔

چوتھے نمبر پر ’ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ اس میں کھانے کی دعوت شامل نہیں ہوتی اور دورہ کرنے والے مہمان کو اپنے قیام اور دیگر امور کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے۔

اور آخری نمبر پر ’پرائیویٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ مملکت، حکومتی سربراہ یا وزیر خارجہ امریکی صدر کی دعوت کے بغیر امریکہ کا دورہ کرتے ہیں، وہ وہاں امریکی صدر سے ملاقات کی درخواست کر سکتے ہیں اور انھیں امریکی صدر کی مصروفیات کے مطابق ملاقات کا وقت دیا بھی جا سکتا ہے اور مصروفیت کی صورت میں انکار بھی ہو سکتا ہے۔ ورکنگ وزٹ کی طرح پرائیوٹ وزٹ پر اٹھنے والے اخراجات بھی مہمان ہی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔

سابق سفیر نجم الدین کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ہر ملک کا پروٹوکول علیحدہ ہے۔ آپ سب کو ایک پیرائے میں نہیں رکھ سکتے۔

ان کے مطابق پاکستان کے دورے پر آنے والے افراد خواہ وہ سربراہ مملکت ہوں، حکومتی سربراہ ہوں یا وزیر خارجہ وغیرہ ان کے دورے کو زیادہ تر سرکاری دورے کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس کے اخراجات حکومتِ پاکستان برداشت کرتی ہے جبکہ برطانیہ اور امریکہ میں یہ سفارتی آداب مختلف ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp