وجاہت مسعود کی کالم نگاری یا زمین کی رہائی کے لئے دعا


ہماری موجودہ اُردو صحافت کے نقار خانے میں وجاہت مسعود کی آواز صاف اور الگ سنائی دیتی ہے۔ اسی لئے تو یہ ممکن ہے کہ ہم ذرا ٹھہر کر یہ جان سکیں کہ یہ آواز ہم سے کیا کہہ رہی ہے۔ ان کے کالموں کا یہ انتخاب گویا وہ روشنی ہے جو صحافت کے دھندلکوں سے نمودار ہو کر فکری ادب کی دہلیز پر آ بیٹھی ہے۔ ٹیلی ویژن کے ٹاک شو کی مانند، اُردو خبارات کے ادارتی صفحات بھی کچے پکے خیالات اور تبصروں کی تکرار بنتے جا رہے ہیں۔ بہت کم کالم نویس ایسے ہیں جو کبھی آپ کے دل کو چھو لیں اور کبھی آپ کے ذہن کو جھنجوڑ دیں۔ وجاہت مسعود یہ کام ایک الگ ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ اس تحریر کا جواز میرے لئے بس یہی ہے کہ میں ان کے کمال کا برملا اعتراف کر سکوں۔ ان کے انداز تحریر اور فکری نظام کی جائز تشریح شاید میں نہ کر پاﺅں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ گزرتے وقت کی سرخیوں سے آراستہ کسی روزنامے میں شائع ہونے والے کالم کیا کسی کتاب کا روپ دھار کر اپنی شگفتگی اور دلچسپی قائم رکھ سکتے ہیں؟ کہا تو یہ جاتا ہے کہ صبح کا اخبار شام ہوتے ہوتے ردّی بن جاتا ہے۔ حوالے تیزی سے بدل جاتے ہیں۔ کوئی اپنی انا کو بہلانے کے لئے اپنے کالموں کو اکٹھا کر لے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ ایسے کسی انتخاب سے کہی ہوئی باتوں کی وقعت اور معنویت میں بھی اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ میں نے جب وجاہت مسعود کے کالموں کے اس انتخاب کو پڑھا۔ یعنی ان کالموں کو کہ جو شناسا لگتے ہیں تو میری نظر میں اس کاوش کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ وہ یوں کہ کسی بھی اخبار میں کوئی بھی کالم جیسے بھیڑ میں موجود ایک چہرہ ہوتا ہے۔ وہ چہرہ اگر ہفتے میں دو بار بھی دکھائی دے تب بھی اس کی خدوخال نمایاں نہیں ہوتے۔ وجاہت مسعود کے کالم یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کو بھیڑ سے علیحدہ کر کے پڑھا جائے کہ ایک کالم سے دوسرے کالم میں منتقل ہونے والی سوچ کی لہر آپ کے ساتھ رہے۔ توقع یہ بھی کی جانی چاہیے کہ سوچ کی یہ لہر آپ کو بھی سوچنے پر آمادہ کرے۔

اردو صحافت میں وجاہت مسعود جیسے لکھنے والوں کے لئے ایک جگہ پیدا ہونا اپنی جگہ خود ایک مستحسن بات ہے۔ بنیادی طور پر اُردو اور انگریزی صحافت کے لہجے اور نقطہ نظر میں ایک فرق قائم رہا ہے۔ اردو صحافت فکری سطح پر قدامت پرست سوچ کی ہمنوا رہی ہے۔ جس قسم کی تحریریں انگریزی اخبارات کی زینت بنتی ہیں ان کی اُردو اخباروں میں گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ انگریزی پڑھنے والے زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور باقی دنیا کے میڈیا سے ان کا رابطہ ممکن ہے۔ لیکن نظریے اور سماجی تبدیلی کے عوامل سے اس تفریق کا بظاہر کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ہمیں “جنگ” اخبار کے ادارتی دسترخوان کی ست رنگی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس کی سب سے نمایاں مثال وجاہت مسعود کی تحریروں کا ذائقہ ہے۔

یہ سچ ہے کہ وہ اکیلے ایسے کالم نگار نہیں ہیں جنہوں نے عقلیت پسندی اور روشن خیالی کا پرچم اُٹھا رکھا ہے۔ لیکن وہ اپنے انداز تحریر، مطالعے اور عہد حاضر کے شعور اور احساس سے وابستگی کے سبب اپنے قبیلے میں نمایاں ہیں۔ اپنی زبان میں دوسری زبانوں اور زمانوں کی فہم کو وہ جس خوبی اور سادگی سے بیان کرتے ہیں اس سے بہت متاثر ہوتا ہوں۔ مثلاَ تھامس (ٹامس ؟) پین کا ایک مقولہ میں نے اپنے انگریزی کے کالموں میں کئی بار نقل کیا ہے۔ اُردو کالم لکھتے ہوئے جب بھی مجھے وہ یاد آیا میں خود میں اس کے تر جمے کی سکت نہ پا کر مایوس ہو گیا۔ لیکن وجاہت مسعود نے یہ کام کتنی خوبی سے کر دیا۔ ان کے کالم “یہ جنگ نہیں ہاریں گے” میں یہ ترجمہ یوں ہے۔ “یہ آزمائش کی وہ گھڑی ہے جس میں ہمارے اندر کے انسان کی قامت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو جائے گی۔ جس نے آج وطن کی حفاظت کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، اسے آئندہ نسلوں کا لازوال احترام نصیب ہو گا”۔

اس حوالہ کا ایک مقصد یہ اعتراف بھی ہے کہ وجاہت مسعود اپنی گفتگو میں ادب اور تاریخ اور روایت اور غیر معروف افکار اور واقعات کو اس طرح شامل کرتے ہیں کہ تکلم کا سلسلہ ٹوٹتا نہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کالموں کا فیض اتنا عام نہیں، جتنا خاص ہے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے اگر ہمیں اردو صحافت کے معیار کو، کم از کم ادارتی شعبے میں، آگے بڑھانا ہے۔ اخبار کا کالم جب ایک کتاب میں شامل ہو جاتا ہے تو آپ کہ سکتے ہیں کہ اس کی آبرو میں اضافہ ہو گیا۔ لیکن شائع ہونے والے تمام کالم اس مرتبے کے مستحق نہیں ہوتے۔ وجاہت مسعود کے کالم پیدائشی طور پر کتابی حسب نسب کے حامل ہیں۔ اس بات کا اشارہ میں نے دیا کہ وہ اخبار کے ایک عام قاری کی فکری دسترس سے دو ہاتھ آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ وجاہت مسعود کی تحریریں اس سے زیادہ توجہ کی مستحق ہیں کہ جو ناشتے کی میز پر ممکن ہوتی ہے۔ ایک کتاب کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ لیکن کتابیں بھی تو دوستوں کی طرح الگ الگ شناخت رکھتی ہیں۔ کالموں کے اس انتخاب کو میں ان کتابوں میں شامل کروں گا جن کو کسی بھی وقت، کہیں سے بھی کھول کر پڑھا جا سکتا ہے۔ جیسے فال لکالنے کا ارادہ ہو۔ اس انتخاب کے تقریباَ، ہر صفحے پر کوئی ایسی بات ضرور ہے جو دلچسپی اور توجہ کے لائق ہو۔

مجھے تو ان کالموں کے عنوانات ہی خوش کر دیتے ہیں۔ تو یہ “ترتیب” بھی پڑھنے کی چیز ہے۔ اب میرے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ میں ان کے زیادہ معنی خیز اور شاعرانہ عنوان نقل کروں کیونکہ یہ کتاب اب آپ کی رسائی میں ہے۔ ہاں، یہ مشکل ضرور ہے کہ کئی عنوانات کالم کے موضوع کی نشاندہی نہیں کرتے اور تجسّس پیدا کرتے ہیں کہ اشارہ کدھر ہے۔ ظاہر ہے کتاب کا عنوان بھی ایک کالم کا عنوان ہے۔ “زمین کی رہائی کے لئے دعا۔” یہ عنوان جاوید شاہین کی ایک نظم سے لیا گیا ہے۔ آپ اسے پڑھ لیں۔ چند لفظوں میں اسی کے موضوع کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ایک مثال ہے وجاہت مسعود کی سوچ کی وسعتوں اور ایجادانہ طرز اظہار کی۔ یہاں وہ علامتوں کی پراسرار دنیا میں سرگرداں ہیں۔ بات ہنگری سے اور ہنگری کے شہرہ آفاق فلمساز کی ایک فلم سے شروع ہوتی ہے جو سنہ 2000ء میں بنائی گئی جو “مزاحمت کا حزینہ” ہے۔ اس فلم کا خلاصہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹ اور صحافت میں فرق ہے؟ اور اکتوبر 2014میں شائع ہونے والے اس کالم کا صحافتی حوالہ اسلام آباد کے دھرنے میں عمران خان کا ایک بیان ہے۔ اور اس کا اختتام جاوید شاہین کی مختصر نظم پر ہوتا ہے۔

بس ایک اور نمونہ۔ کالم کے عنوان سے اس کا متن سوچئے۔ ’ابھی سنگ ِخارا ہٹا نہیں رہ آب سے‘۔ بات پہلے جملے میں بیان ہو جاتی ہے۔ ’کیسا زمانہ آ لگا ہے کہ خوبصورتی کا نام آتے ہی صاحبان اندیشہ کنوتیاں کھڑی کر لیتے ہیں اور تھوتھنی اُٹھا کر بھرائی ہوئی آواز میں پکارتے ہیں، ’فحاشی‘…. ’فحاشی‘۔ اور بھی مثالیں ہیں کہ کس طرح عام زندگی کے حسن کو پامال کیا جا رہا ہے۔ ہفتہ بھر کی کئی خبروں میں انتہا پسندی کی شکل میں پھیلی بدصورتی کی تشریح ہے۔ وجاہت مسعود کا دکھ یہ ہے کہ “معاشرے میں اشتعال انگیزی کا ہتھیار جس طبقے کے ہاتھ میں ہے ان کی علمی صلاحیت کمزور ہے اور اخلاقی اصابت موہوم۔”

معاشرے کی بدصورتی اور ویرانی کو جانتے اور سمجھنے والوں کی تعداد کتنی ہی ہو، وجاہت مسعود جس خوبصورتی اور اظہار پر اپنی حیران کر دینے والی دسترس کے ساتھ اکیلے دکھائی دیتے ہیں۔ چپکے سے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ اس اعتراف میں رشک کا عنصر بھی شامل ہے۔ وہ ایسی اُردو لکھتے ہیں جو جدید عہد کے علم اور رحجانات کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی وہ اُردو زبان کے لسانی امکانات کا پتہ دیتے ہیں۔ ایسی تحریریں اگر اخبار میں پڑھنے کو مل جائیں تو واہ واہ ٰلیکن انھیں دائم رکھنے کے لئے ایک کتاب کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، پرانا اخبار تو پرچون کی دوکان کی پڑیا بنانے کا کام آتا ہے۔ کتاب تو جب آپ اُداس ہوں تو اِدھر اُدھر سے پڑھ سکتے ہیں۔ یا کتاب کے چند صفحات پڑھ کر اداس ہو سکتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ہمارے معاشرے میں نہ اخبار زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور کتاب اور یہ صورت حال بھی اس ویرانی کا حصہ ہے جس کی نوحہ گری وجاہت مسعود نے اپنے سر لی ہے۔ ‘دانش کا قومی بحران’ ان کے بیانیہ میں مسلسل جھلکتا ہے۔ وہ رجعت پسندوں کے خلاف فکر اور دلیل کا ہتھیار تو استعمال کرتے ہیں لیکن ایسی ادا سے کہ وہ مصرع یاد آتا ہے کہ “تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔۔‘

ان کی کرامات کی مثالیں دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس انتخاب کو پڑھتے ہوئے آپ بھی کسی جملے، کسی خیال، کسی اشارے پر ٹھہر جائیں گے، مختلف تحریروں اور واقعات سے اخذ کئے ہوئے ان کے حوالے بتاتے ہیں کہ ان کے مطالعے کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کہیں ‘کا سابلانکا ‘ کا ’ فلیش بیک‘ ہے تو کہیں محمد حسن عسکری یا عبداللہ حسین کی تحریروں میں سے کسی جملے کی بازگشت۔ کتنے لوگ، کتنی باتیں انھیں یاد رہتی ہیں اور ان کی گفتگو میں یوں شامل ہو جاتی ہیں کہ آپ چونک جائیں کہ وجاہت مسعود کی پٹاری میں کیا کچھ موجود ہے۔

اس انتخاب میں دسمبر 2013 ء کے آخری دو ہفتوں میں شائع ہونے والے چار کالموں کے علاوہ سارے کالم 2014ء کے ہیں۔ اس طرح آغاز مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہوتا ہے اور اختتام، اسی منحوس تاریخ کے المیے کے آس پاس۔ تیسرا کالم، دسمبر کے آخری ہفتے کی آمد، ” صبا درس زبان آموز کی تفصیل رکھتی ہے” ہے۔ اس میں قائداعظم اور بے نظیر بھٹو کے کردار نمایاں ہیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول کا ذکر انتخاب کا آخری کالموں میں ہے۔ “کوئی اسکول کی گھنٹی بجا دے” اور “ہوشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا ” گویا ہمارا معاشرہ زندہ رہنے کی کشمکش سے دوچار ہے۔ اور وجاہت مسعود ہمیں بتا رہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک کالم کا عنوان ہے۔ کہ “مسائل کو گرہ دیں تو لہو رستا ہے پوروں سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).