’افغان سیکس سکینڈل‘: ’ہر کوئی آپ سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے‘


افغانستان جنسی ہراساں
سابق حکومتی اہلکار نے سینیئر وزیر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا

افغانستان میں اعلیٰ حکومتی سطح پر جنسی ہراس کے الزامات نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ حکومتی اہلکاروں نے تو ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن بی بی سی نے معاملے کی تحقیقات کے دوران ایسی خواتین سے بات کی جنھوں نے ہراس کے اس ماحول کی بھیانک منظر کشی کی ہے۔

کابل کے خشک پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک مکان میں میری ملاقات ایک سابق خاتون سرکاری افسر سے ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام راز میں رکھنے کی درخواست کی کیونکہ انھیں ردعمل کا خوف ہے لیکن وہ چاہتی ہیں کہ دنیا ان کی کہانی سنے۔

خاتون نے بتایا کہ ان کے سابق باس نے جو حکومت میں سینیئر وزیر ہیں، انھیں متعدد بار ہراساں کیا، ایک دن جب وہ ان کے دفتر گئیں تو وزیر نے ان کے جسمانی استحصال کی بھی کوشش کی۔

‘اُس نے براہِ راست مجھ سے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے کہا۔ میں نے اسے کہا کہ میں ایک تجربہ کار اور اہل افسر ہوں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ مجھ سے ایسی بات کریں گے۔

’میں باہر نکلنے کے لیے کھڑی ہوئی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے دفتر کے پیچھے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس نے مجھے کمرے کی طرف دھکا دیا اور کہنے لگا کہ ‘کچھ منٹ ہی لگیں گے، فکر مت کرو، میرے ساتھ آؤ۔’

‘میں نے اس کے سینے پر ہاتھ کر دھکا دیا اور کہا بہت ہو گیا۔ مجھے مجبور نہ کرو کہ میں چلّاؤں۔ وہ آخری بار تھا کہ میں نے اسے دیکھا۔ میں بہت غصے میں تھی اور پریشان تھی۔’

کیا انھوں نے اس واقعے کہ بعد شکایت درج کروائی؟

وہ کہتی ہیں ‘نہیں میں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ مجھے حکومت پر اعتبار نہیں ہے۔ اگر آپ عدالت یا پولیس کے پاس جائیں گے تو آپ دیکھیں گے وہ کتنے کرپٹ ہیں۔ آپ کو کوئی محفوظ جگہ نہیں ملے گی جہاں آپ جا کر شکایت کر سکیں۔ اگر آپ بات کریں گے تو سب عورت پر ہی الزام لگاتے ہیں۔’

سابق حکومتی اہلکار بتاتی ہیں کہ انھیں دیگر دو خواتین نے بتایا کہ اُسی وزیر نے انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ تاہم بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘وہ بغیر کسی شرم اور خوف کے یہ کر رہا ہے کیونکہ وہ حکومت میں ایک اثر و رسوخ رکھنے والا شخص ہے۔’

افغانستان تسلسل سے عورتوں کے لیے بدترین ملکوں کی فہرست میں اوپر آتا رہا ہے۔ سنہ 2018 میں اقوام متحدہ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں تفصیل بتائی گئی کہ کیسے افغانستان میں جنسی جرم اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر شکایات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ تو خود اُنھیں ہی ان سے کی گئی زیادتی کا قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔

اس ماحول میں ایک طاقتور شخص کی جنسی بدکاری کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں۔

صدر اشرف غنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دفتر نے الزامات کی تردید کی ہے

یہی وجہ ہے کہ جن چھ خواتین سے ہم نے بات کی ان میں سے زیادہ تر بات کرنے سے خوفزدہ تھیں۔ لیکن ان سے بات کر کے ہمیں اندازہ ہوا کہ جنسی ہراساں کرنا افغانستان کی حکومت میں ایک مسئلہ ہے جو کسی ایک شخص یا ایک وزارت تک محدود نہیں ہے۔

‘یہ اب ماحول کا حصہ بن چکا ہے’

ایک چھوٹے سے پارک کے ساتھ ایک دفتر میں میری ملاقات ایک اور خاتون سے ہوئی جو اپنی کہانی بتانے کو تیار تھیں۔ انھوں نے ایک حکومتی ملازمت کے لیے درخواست دی تھی اور ان کو وہ نوکری ملنے ہی والی تھی کہ انھیں بتایا گیا کہ وہ صدر اشرف غنی کے قریبی ساتھی سے ملاقات کریں۔

وہ بتاتی ہیں ‘یہ شخص صدر کے ساتھ تصویروں میں نظر آتا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نجی دفتر میں آنے کو کہا۔ اس نے کہا آؤ اور بیٹھ جاؤ، میں تمہاری درخواست منظور کر دوں گا۔ وہ میرے مزید قریب آیا اور کہنے لگا آؤ (شراب) پیتے ہیں اور سیکس کرتے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے پاس دو ہی راستے تھے یا تو میں ان کے مطالبے کو مان لوں یا چلی جاؤں۔ اور اگر میں مان لیتی تو یہ اس تک نہ رکتا بلکہ متعدد مرد مجھے سیکس کے لیے کہتے۔ یہ بہت چونکا دینے والی بات تھی۔ میں ڈر گئی اور وہاں سے چلی گئی۔

اس نوکری کا کیا بنا میں نے ان سے پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے حکومتی محکمے کو کال کر کے پوچھنے کی کوشش کی اور مجھے بتایا گیا کہ ‘یوں سوچو تمہارے بینک اکاؤنٹ میں رقم ڈالی گئی لیکن تم نے اسے نہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔’

ہماری گفتگو کے دوران وہ رونے لگیں۔ ‘ان چیزوں کی وجہ سے میں رات کو سو نہیں سکتی۔ آپ کو غصہ آتا ہے اور آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔

‘اگر آپ شکایت کرنے جج، پولیس، استغاثہ، ان میں سے کسی کے پاس بھی جاتے ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ سیکس کرنے کو کہیں گے۔ تو اگر وہ یہ کر رہے ہیں، آپ کس کے پاس جائیں گے؟ یہ ایسا ہے کہ یہ ماحول کا حصہ بن چکا ہے، آپ کے گرد ہر مرد آپ کے ساتھ سیکس کرنا چاہتا ہے۔’

افغانستانی خواتین
افغانستان تسلسل سے عورتوں کے لیے بدترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر گنا جاتا ہے

یہ کہانیاں یا تو کہی نہیں جا رہی تھیں یا آہستہ آواز اور چہ مگوئیوں میں ان پر بات ہو رہی تھی لیکن مئی میں یہ معاملہ سب کی توجہ کا مرکز تب بنا جب صدر کے سابق مشیر اور اب ان کے سیاسی مخالف جنرل حبیب للہ احمد زئی نے ایک افغان خبر رساں چینل پر اس کے بارے میں بات کی۔

انھوں نے سینیئر حکومتی اہلکاروں اور سیاستدانوں پر ‘جسم فروشی کو فروغ’ دینے کا الزام لگایا۔

صدر کے دفتر نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا اور ای میل پر بھیجے گئے سوالوں کے جواب بھی نہیں دیے۔

انھوں نے ہماری توجہ ان کے گذشتہ بیان کی طرف دلائی جس میں انھوں نے جنرل احمد زئی کے الزامات کو مکمل طور پر غلط قرار دیا تھا اور کہا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔

ایک حکومتی وزیر نرجس نیہان نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘این یو جی (حکومتی قومی اتحاد) کی کابینہ کی خاتون رکن ہونے کی حیثیت سے میں یہ اعتماد سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔’

لیکن خواتین کے حقوق کی وکیل اور سابق رکن پارلیمنٹ فوزیہ کوفی کہتی ہیں کہ انھیں موجودہ حکومت میں موجود مردوں کے خلاف بہت ساری جنسی ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘حکومت کا ردعمل دفاعی ہے۔ وہ اس مسئلے کو سیاسی معاملے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں بجائے اس کے کہ یہ افغانستان کی تمام خواتین کا مسئلہ ہے۔’

فوزیہ کوفی
فوزیہ کوفی 2005 میں پہلی دفعہ رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اندر ایسے مردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی روایت ہے۔ ‘وہ مرد جو یہ کرتے ہیں وہ حکومت کے اندر اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اس وجہ سے ایسا جرم کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔’

حکومت نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اس کی ذمہ داری اٹارنی جنرل کے دفتر کو سونپی ہے جس کی تقرری خود صدر نے کی ہے۔

میں نے کابل میں اٹارنی جنرل کے ترجمان جمشید رسولی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ ان کے میز کے پیچھے صدر اشرف غنی کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیوں یقین کرنا چاہیے کہ تحقیقات غیر جانبدارانہ ہوں گی؟

انھوں نے کہا کہ ‘آئین نے اٹارنی جنرل کو غیرجانبدار ہونے کا حق دیا ہے۔ ہم نے کارکنان، مسلمان علما اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ تحقیقات کا حصہ بنیں تاکہ لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ ہم غیر جانبدار ہیں۔’

میں نے انھیں بتایا کہ جن خواتین سے ہم نے بات کی ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کو حکومتی محکموں پر اتنا اعتماد نہیں ہے کہ وہ ان سے شکایت کریں۔

انھوں نے جواب دیا کہ ‘ہم نے اعلان کیا ہے کہ ہم ہر شکایت گزار کی شناخت کو راز میں رکھیں گے۔ جو ہمارے ساتھ تعاون کریں گے، ہم ان کو اور ان کے اہلخانہ کو محفوظ رکھنے کے لیے انتظامات کریں گے۔’

افغانستان میں جمہوریت، جنگ کے عوض آئی ہے جس میں ہزاروں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگ کے مقاصد میں سے ایک خواتین کو ان کے حقوق اور عزت کی ضمانت بھی تھی جنھیں طالبان کے دور میں بدتین تشدد کا سامنا کرنا پڑھتا تھا۔

افغانستان میں نیٹو کے مشن ‘ریزولوٹ سپورٹ’ نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ خواتین کے حقوق کی اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ویمن سے متعدد بار تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور برطانوی سفارتخانے نے بھی اس پر تبصرے سے انکار کر دیا۔

یہ افغانستانی خواتین کے لیے بڑا ہی نازک وقت ہے۔ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں اپنی بات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

کم از کم اس ملک کے کچھ علاقوں کی خواتین نے سنہ 2001 میں طالبان کی جابرانہ حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے بہت آگے کا سفر طے کیا ہے لیکن اگر حکومت میں جنسی ہراساں کرنے کے واقعات پر سزائیں نہ ہوئیں تو اس ترقی کو بہت نقصان ہو گا۔

ہمیں انٹرویو دینے والی ایک خاتون نے ہمیں کہا کہ ‘میں صدر کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کی آوازوں کو سنیں اور انھیں قبول کریں۔

’اگر وہ ملک کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔ ایک دن سچ سب کے سامنے آئے گا۔ لیکن اس وقت یہ ایک دُور کے خواب کی مانند ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp