حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ کے لیے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار


حاصل بزنجو

جمعرات کو اسلام آباد میں اپوزیشن کی جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے حزب اختلاف نے مشترکہ امیدوار سینیٹر حاصل بزنجو کے نام پر اتفاق کرلیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں پر مبنی اس رہبر کمیٹی کے 11 اراکین ہیں جو آج کے اجلاس میں موجود تھے۔ جس میں سینیٹ چییرمین صادق سنجرانی کا متبادل ڈھونڈنے کے بارے میں صبح 11:30 بجے سے اجلاس جاری تھا۔

پچھلے اجلاس کی طرح آج کے اجلاس کی میزبانی بھی خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے لیڈر اکرم خان درانی نے کی۔

یاد رہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حال ہی میں چییرمین سینیٹ کو ہٹانے کے خلاف سیکٹیریٹ میں قرارداد جمع کرائی تھی۔ اس قرار داد میں 26 سینیٹروں کے دستخط درکار تھے اور حزبِ اختلاف کے پاس اس سے دُگنی تعداد میں سینیٹر موجود تھے۔

رہبر کمیٹی کا یہ آج دوسرا اجلاس ہے۔ پہلے اجلاس میں رہبر کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کا متبادل ڈھونڈنے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر غور کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے گا۔

اس سے قبل پاکستان کی پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ایوانِ بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی تھی۔ یہ قرارداد راجہ ظفر الحق، مشاہد اللہ، شیری رحمان اور دیگر ارکانِ سینیٹ نے سینیٹ کے سیکریٹری کے پاس جمع کروائی۔ اس درخواست پر 44 ارکان نے دستخط کئے۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لانے کا فیصلہ 26 جون کو اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیرِ صدارت ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر کیا تھا۔

اس اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے متبادل نام تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جسے ‘رہبر کمیٹی’ کا نام دیا گیا تھا۔ 5 جولائی کو رہبر کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔

حاصل بزنجو کون ہیں؟

میر حاصل خان بزنجو کا تعلق پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ہے۔ وہ سنہ 1991 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار شامل ہوئے۔ سنہ 1997 میں باقاعدہ طور پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ سنہ 1998 میں انھوں نے بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہی نکلی ہوئی ایک جماعت تھی۔ تاہم 2003 میں نیشنل پارٹی بنی جس میں حاصل بزنجو نے بھی شمولیت اختیار کی۔

حاصل خان بزنجو نے ایوان میں کئی بار بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاست نے وہاں کئی ناانصافیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونے والی شورش میں کمی نہیں آرہی ہے۔‘

جمہوریت کے لیے اکثر آواز اٹھانے والے حاصل بزنجو نے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن 2009 میں سینیٹ کے انتخاب میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔

حاصل بزنجو وفاق میں مسلم لیگ نواز کے حامی اور مضبوط اتحادی رہے ہیں۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کیا۔ جبکہ 2014 میں نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد حاصل بزنجو کو 2015 میں بندرگاہ اور شپنگ کی وزارت ملی تھی۔

جب صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین منتخب کیا گیا تھا تب حاصل بزنجو نے اسمبلی کے فلور پر اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی تھی۔ اور کہا تھا کہ ’ایوان سے بھی بڑی کسی طاقت نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا ہے۔‘

نئے چیئرمین سینیٹ کو کیسے منتخب کیا جائے گا؟

اپوزیشن کی تحریک پر نوٹس جاری ہونے کے سات دن بعد کام کے پہلے روز قرارداد پیش کرنے کی تحریک کو سینیٹ کے اجلاس میں واحد ایجنڈا آئٹم کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ جبکہ اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ نہیں کریں گے۔

چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہو گی۔ موجودہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس 67 اور حکومت کے پاس 36 سینیٹر موجود ہیں۔

صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری ہو گا اور یہ انتخاب بھی خفیہ رائے شماری سے ہی ہو گا۔

ایوانِ بالا میں اس قرارداد کی منظوری کے لیے 53 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن کے مجموعی ارکان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

صادق سنجرانی

موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے کوشاں پیپلز پارٹی ان کے انتخاب کے معاملے میں پیش پیش تھی

یہ بھی پڑھیے

‘سینیٹ کے حلال اور حرام کے ووٹ’

چیئرمین سینیٹ:’نواز شریف رضا ربانی کے حامی مگر زرداری انکاری‘

غیر متوقع جیت پر زرداری کی ’بلے بلے‘ یا جمہوریت کو نقصان

پیپلز پارٹی صادق سنجرانی کے خلاف کیوں؟

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے کوشاں جماعتوں میں پیپلزپارٹی پیش پیش ہے جبکہ اس کے شریک چیئرمین اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ان کے انتخاب کے معاملے میں بھی پیش پیش تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں پی پی پی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کے لیے متفق تھیں لیکن ان کی اپنی ہی پارٹی نے رضا ربانی کو چھوڑ کر آصف علی زرداری کی منشا کے مطابق صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔

پیپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے ہی صادق سنجرانی مطلوبہ تعداد میں ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے اور چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا تھا کہ ‘اب محرکات بدل گئے ہیں۔ جو کل حزبِ اختلاف میں تھے وہ آج حکومت میں ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ اپوزیشن میں تھی، تو ہم نے یہ فیصلہ لیا۔ لیکن اب پی ٹی آئی حکومت میں ہے اور اب ہم اپوزیشن میں ہیں تو اصول یہی ہے کہ اب موجودہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اب اگر ہمارے پاس مطلوبہ نمبر ہیں تو ہم کیوں نہ نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کریں؟’

پاکستان، ایوانِ بالا

سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے اور چیئرمین کی تبدیلی کے لیے 53 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے

سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے اور چیئرمین کی تبدیلی کے لیے 53 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے۔

اس وقت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 66 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے سینیٹروں کی تعداد صرف 38 ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق موجودہ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق اس وقت 104 کے ایوان میں 103 ارکان ہیں۔ حلف نہ اٹھانے والے اسحاق ڈار کے بغیر مسلم لیگ ن کے پاس 30 سینیٹر ہیں۔ ان میں سے 17 مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جیتے تھے باقی 13 آزاد حیثیت سے جیتے ہوئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 21، نیشنل پارٹی کے پانچ، جمیعت علمائے اسلام ف اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چار، چار، جماعت اسلامی کے ساتھ دو، اے این پی کا ایک سینیٹر ہے۔ یوں سینیٹ میں اپوزیشن کے 67 سینیٹر ہیں۔

حکمراں اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے 14، سینیٹر صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے آٹھ، ایم کیو ایم کے پانچ، فاٹا کے سات، مسلم لیگ فنکشنل اور بی این پی مینگل کا ایک ایک سینیٹر ہے۔

تاہم یہ اعداد و شمار کا معاملہ اتنا سادہ نہیں اور جب ایک ماہ پہلے اسی قسم کی تحریک چلی تھی تب مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹروں نے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کیا تھا۔

اب بھی دونوں جماعتوں میں ایسے ارکان ہیں جو چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر متفق نہیں۔ اسی بارے میں مسلم لیگ نواز کے ایک سینیئر رہنما نے حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ ایک وقت سے پہلے لیا گیا فیصلہ ہے جس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔’

پارلیمان کی کارروائی پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ایم بی سومرو کا کہنا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک رد ہونی ہے تو اس کے لیے مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کے ارکان کا اس تحریک کی حمایت نہ کرنا لازم ہے۔

ان کے مطابق ‘اگر دونوں پارٹیاں نہیں ٹوٹتیں تو سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک رد ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp