عالمی کپ میں شکست: انڈیا ہارا یا نیوزی لینڈ جیتا


ولیم سن اور ویراٹ کوہلی

میچ کے اختتام پر دونوں ٹیموں کے کپتان

نیوزی لینڈ کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے جو جنوبی انڈیا میں میرے آبائی شہر بنگالورو کی کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔

اگر آپ نیوزی لینڈ کی بھیڑوں کی کل تعداد کو بھی جو انسانوں کی آبادی کا سات گنا ہے، اس میں شمار کر لیں تب بھی یہ انڈیا کی بہت سی ریاستوں کے مقابلے میں کم ہو گی۔ نیوزی لینڈ میں ‘رگبی’ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے جس کو تمام تر پیسہ، ٹیلنٹ اور توجہ حاصل رہتی ہے۔

انڈیا اس کے برعکس ایک اعشاریہ تین ارب آبادی والا ملک کرکٹ کے ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا۔ انڈیا کو ٹیم بنانے کے لیے بے شمار کھلاڑی اور کھیل کے فروغ کے لیے بے حساب سرمایہ حاصل ہے اور وہ ایک روزہ کرکٹ میں اول نمبر کی ٹیم ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں انڈیا کی شکست بالکل اسی طرح ہے جیسے درجنوں جالتوں پر ایک داؤد بھاری پڑ گیا ہو۔

انڈیا کے پاس کرکٹ کے ستارے تھے اور نیوزی لینڈ کے پاس ٹیم۔

انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے مشیر اور معاون عملہ بہت سی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے زیادہ پیسہ کماتے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ان اللے تللوں کے لیے اضافی سرمایہ میسر نہیں ہے۔

انڈیا کی ٹیم کو دنیا کے بہترین بلے باز، بولر اور فیلڈر دستیاب ہیں اور ایک ایسا بلے باز بھی ہے جس نے اس ٹورنامنٹ میں پانچ سنچریاں بنائیں۔ نیوزی لینڈ کے پاس صرف کین ویلیم سن کپتان ہے جو ان کا اہم بلے باز بھی ہے اور ٹیم کے 30 فیصد رن بنانے والا کھلاڑی بھی۔

انڈیا کی ٹیم کے شائقین اور خاص کر جو ٹیم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں سب سے زیادہ ہیں جب کہ نیوزی لینڈ کی حالت یہ ہے کہ میدان میں اس کی حوصلہ افزائی کے لیے شائقین کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ شاید اس کے کھلاڑی سٹیڈیم میں موجود اپنے تمام حامیوں کے ناموں تک سے واقف ہوں۔

دھونی مارٹن گپٹل کی تھرو پر رن آؤٹ ہوئے

دھونی مارٹن گپٹل کی تھرو پر رن آؤٹ ہوئے

اتنے شدید توافت کے باوجود سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ کھیلنے والے اتنے بڑے ملک کی ٹیم جو ایک روزہ میچوں کی نمبر ون ٹیم ہے اور اپنے آپ کو چیمپئن بھی تصور کرتی ہے ایک نسبتاً چھوٹی ٹیم سے شکست کھا گئی اور یہ ہی اس کھیل کا حسن ہے۔

انڈیا میں اس کا پوسٹ مارٹم ہو گا اور شاید کچھ کھلاڑیوں کی چھٹی ہو جائے۔

انڈیا برا نہیں بلکہ غیر دانشمندانہ کھیل کھیلی۔ دو بہتریں گیندوں پر دو بہترین کھلاڑی روہت شرما اور ویراٹ کوہلی آؤٹ ہوئے اور پہلے دس اوور میں عملاً میچ ختم ہو گیا تھا۔

روندر جدیجہ

روندر جدیجہ نے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی امیدوں کو آخری وقت تک برقراد رکھا

تاہم 48ویں اوور تک روندر جدیجہ کی بدولت میچ جیتنے کی امید باقی رہی لیکن وہ بھی آخر کار دم توڑ گئی۔ مدافعانہ انداز اختیار کیے ہوئے مہندر سنگھ دھونی اس کے فوراً بعد رن آؤٹ ہو گئے۔ کیا دھونی نے اس وقت تک بہت دیر نہیں کر دی تھی۔ جو بھی کچھ تھا یہاں بات دم توڑ گئی۔

ولیم سن وکٹ کو بہتر سمجھے اور ان کا محتاط انداز میں بیٹنگ کرنا ہی اس وکٹ پر بہترین حکمت عملی تھی۔ اس کے باوجود 240 کا ہدف انڈیا کی پہنچ سے زیادہ دور نظر نہیں آ رہا تھا۔ ٹرنٹ بولٹ اور میٹ ہنری نے اس بات کو یقینی بنایا کہ انڈیا اس ہدف تک نہ پہنچ سکے۔ انڈیا کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے مچ سینٹینر کافی تھے۔

جو ٹیمیں عالمی کپ کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہیں وہ ٹورنامنٹ کے دروان اپنا کھیل بہتر کرتی ہیں۔ انڈیا ایسا کرنے میں ناکام رہا۔

غلط انتخاب

انڈیا نے شروعات اوپنگ کرنے والے تین بہترین بلے بازوں اور تین بہترین گیند بازوں سے کی۔ لیکن درمیانی نمبروں چار، پانچ اور چھ پر آنے والے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ تین بلے بازوں سے جو اپنی زندگی کا پہلا ورلڈ کپ کھیل رہے تھے یہ توقع کرنا کہ وہ ابتدائی تین بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے بعد ان کی کمی کو پورا کریں گے ان کے ساتھ کوئی انصاف نہیں تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ اتنے لمبے عرصے تک جس کھلاڑی کو نظر انداز کیا جاتا رہا آخر میں سارا بوجھ اس پر ڈال دیا گیا، انڈیا کی کرکٹ کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔

ویراٹ کوہلی کے خلاف بولٹ کی اپیل

ویراٹ کوہلی کی اہم اور فیصلہ کن میچ میں ناکامی

ٹورنامنٹ میں غلط کھلاڑیوں کا انتخاب اور اس سے قبل نمبر چار جیسی اہم پوزیشن کے لیے صحیح کھلاڑی کی تلاش میں ناکامی بھی شکست کا باعث بنے۔ انڈیا نے گزشتہ عالمی کپ کے بعد سے چار سے سات نمبروں پر 24 کھلاڑیوں کو آزمایا۔ اس صورت حال کی وجہ باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں بلکہ درست فیصلہ نہ کرنا ہے۔

کیا انڈیا نے نیوزی لینڈ کو ایک آسان شکار سمجھا۔ شائقین، ذرائع ابلاغ اور قومی جذبے سے سرشار کرکٹ مبصرین کی حد تک تو یہ بات بالکل درست تھی۔

لیکن کھلاڑی بھی کیا ایسا ہی سمجھ رہے تھے۔ پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر جب بارش کی وجہ سے باقی کھیل کو دوسرے دن تک موخر کر دیا گیا نیوزی لینڈ نے پانچ کھلاڑیوں کے نقصان پر 211 رنز بنائے تھے اور وہ میچ ان کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیتا تھا۔ آخری 23 گیندوں میں نیوزی لینڈ نے دوسرے دن 28 رنز بنائے تو انڈیا کے کھلاڑی سمجھے کہ پِچ آسان ہو گئی ہے۔

لیکن انڈیا کو اپنے درمیانی بلے بازوں کی کمزوری کی بلآخر قیمت ادا کرنی پڑی اور جس کی وجہ کھلاڑیوں کا غلط انتخاب تھا۔ اس دوران جدیجہ کہاں تھا۔

جب نیوزی لینڈ کی طرف سے دباؤ پڑا تو انڈیا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

سریش مینن وزڈن انڈیا ایلمینک جریدے کے مدیر ہیں اور دی ہندو اخبار میں بھی لکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp