چاندی کا جادو اور پرہیز گار محلے دار


”زاہد! مجھے مارکیٹ تک چھوڑدو گے؟ “

ایک لمحے کے لیے تو زاہد کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ سوچ رہا تھا یہ کس مصیبت میں پھنس گیا۔ کاش میں اس وقت گھر سے نکلا ہی نہ ہوتا یا پھر جب چاندی نے رکنے کا اشارہ کیا تھا تو موٹر سائیکل کو بریک نہ لگاتا بعد میں کہہ دیتا کہ میں نے دیکھا نہیں تھا لیکن میں ایسی باتیں کیوں سوچ رہا ہوں صاف صاف انکار کر دینا چاہیے۔ ”سوری! مجھے دیر ہو رہی ہے۔ “ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا۔ جسے جھوٹ بولنے کی عادت نہ ہو اس کے لیے چھوٹا سا جھوٹ بولنا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے۔

”دیر کیسے ہو گی؟ تم نے ابھی بتایا ناں کہ تم گھنٹہ گھر چوک جا رہے ہو حسین آگاہی بازار تو راستے میں آئے گا۔ چلو تھوڑا آگے ہو جاؤ کہیں تمہیں دیر نہ ہو جائے۔ “ چاندی بڑی بے تکلفی سے اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ زاہد نے جلدی سے موٹر سائکل آگے بڑھا دی کہ کہیں محلے والے اسے دیکھ نہ لیں۔ راستے میں سوچ رہا تھا کہ مروت بھی بڑی بری شے ہے۔ ابھی اس نے تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ چاندی نے اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ ختم کر دیا۔ اس کی کمر سے چپکا نرم گرم وجود اس کے حواس پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا، پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے اور وہ یہ کہنے کی جرات نہ کر پا رہا تھا کہ ذرا ہوا کو تو گزرنے دو۔

زاہد کالج میں پڑھتا تھا۔ جوانی کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد چاہتا تھا کہ اسے بڑوں میں شمار کیا جائے۔ اس نے محلے کے بڑوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ وہیں چاندی کے بارے میں چہ میگوئیاں سننے کو ملیں۔ چاندی کی عمر چالیس کے لگ بھگ رہی ہو گی۔ اسے اس محلے میں آئے ہوئے دو تین مہینے ہوئے تھے اور وہ ابھی سے محلے کے معززین کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ ایک دس بارہ سال کی لڑکی بھی تھی جس کے بارے میں گمان تھا کہ وہ چاندی کی بیٹی ہے۔

محلے والوں کو چاندی کی سرگرمیاں مشکوک سی لگتی تھیں اور انہیں اس کے محلے میں رہنے پر گہری تشویش تھی۔ زاہد کا خیال تھا کہ یہ لوگ خواہ مخواہ اس عورت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں حقیقت میں وہ بے ضرر سے خاتون ہو گی لیکن اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں ہے۔ حسین آگاہی میں بریک لگا کر اس نے چاندی کو اتارا اور بغیر کچھ کہے سنے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ وہ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔

گرمی کا موسم تھا لہٰذا محلہ کمیٹی کا اہم اجلاس عابد شیخ کے گھر میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ فقط اسی کا گھر اتنا بڑا تھا کہ اس میں ایک وسیع صحن میں نیم کا ایک بڑا درخت تھا۔ شام کو صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرکے دو پنکھے لگا دیے گئے تھے۔ سات آٹھ کرسیاں اور ایک چارپائی اسی درخت کے قریب بچھا دی گئی تھی۔ اس اجلاس میں محلہ کمیٹی کے آٹھ اہم ممبران موجود تھے۔ زاہد بھی ان میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ سب افراد ادھیڑ عمر تھے۔ زاہد کی موجودگی پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ وہ عابد شیخ کا چہیتا تھا۔ عابد شیخ باریش آدمی تھا اور کریانے کی ایک دکان چلاتا تھا۔ ہر اجلاس میں چائے اور دیگر لوازمات کا بوجھ بھی اٹھاتا تھا۔

سب ممبران کے چہروں پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ عبدالقدوس عمر میں ان سب سے بڑا تھا، کسی سرکاری محکمے میں کلرک تھا اور اب ریٹائرمنٹ کے قریب تھا۔ اس کا جسم قدرے فربہ تھا اور سر کے بال اڑ چکے تھے۔ کئی لمحوں کی خاموشی کے بعد عبدالقدوس سے سر اٹھایا اور بڑے گھمبیر لہجے میں کہنا شروع کیا۔

”بھائیو! ہمارا محلہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہم نے یہاں باقاعدہ محلہ کمیٹی بنا رکھی ہے اور ہم ہر معاملے میں مشاورت کرتے ہیں۔ اب یہ جو مسئلہ ہے اس پر بھی ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے گھروں میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں قدم نہ اٹھایا تو نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ “

سب نے اس کی تائید میں سر ہلا دیے پھر صابر شاکر نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور ایک نظر سب کی طرف دیکھا، وہ کلین شیو تھا، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا، بنک میں کیشئیر کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔

”قبلہ آپ کھل کر بات کریں تا کہ ہمیں مسئلے کی نوعیت کا اندازہ ہو۔ “

”صابر بھائی آپ تو ایسے انجان بن رہے ہیں جیسے اس محلے میں رہتے نہ ہوں، صاف ظاہر ہے ہم اسی حرافہ کے سلسلہ میں بات کر رہے ہیں جو اس محلے کے پاکیزہ ماحول کو آلودہ کرنے آئی ہے۔ “ ناظم راؤ نے منہ بنا کر کہا۔ وہ ایک ایسا وکیل تھا جس کی وکالت چلتی نہ تھی اس کے پاس چیمبر تک نہیں تھا، وہ کچہری میں جا کر کلائنٹ ڈھونڈا کرتا تھا اور جب کوئی مل جاتا تو کوشش کرتا کہ اس مہینے کا خرچ اسی سے پورا کر لے۔

”ناظم اس قدر تلخ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کھل کر بات تو کرنی پڑے گی، صابر بھائی نے کوئی بے جا مطالبہ نہیں کیا۔ “ عبدالقدوس نے قدرے ناگواری سے کہا۔
”جی میں تو بس اتنا چاہتا تھا کہ پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ چاندی کے خلاف کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں“ صابر شاکر نے شہ پا کر فوراً کہا۔

”کمال کرتے ہو صابر بھائی! اتنے گواہان کی موجودگی کے باوجود ثبوت کی بات کر رہے ہو“ ناظم بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔
”میرا خیال ہے شک تو ہم سب کو ہے لیکن ٹھوس ثبوت ہم سے کسی کے پاس نہیں ہے“ عابد شیخ نے لب کشائی کی۔

”جی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میں نے خود اپنی گنہگار آنکھوں سے کل ایک کالی گاڑی کو چاندی کے دروازے پر رکتے دیکھا تھا۔ رات دس بجے کا وقت تھا۔ میں گرمی کی وجہ سے چھت پر سوتا ہوں۔ وہاں سے گلی میں نظر آتا ہے۔ اس گاڑی میں سے دو آدمی نکلے اور چاندی کے گھر میں چلے گئے چند منٹ بعد ایک آدمی باہر آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا دوسرا آدمی اندر ہی تھا۔ پتہ نہیں وہ کب نکلا اور کب گیا۔ ذرا غور فرمائیے اندر دو آدمی گئے تھے اور باہر ایک آیا۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے“ شبیر نے ناک پر رکھی عینک درست کرتے ہوئے کہا، وہ واپڈا کے محکمے میں لائن مین تھا۔

”جانے دیجیے شبیر بھائی! عینک کے بغیر تو آپ کو دس فٹ سے دور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے آپ کو ایک کے دو دو نظر آ رہے ہوں۔ “ ناظم راؤ نے خیال ظاہر کیا۔

”ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں نے عینک لگا کر دیکھا تھا۔ اگر پھر بھی آپ کو یقین نہیں آتا تو اگلے ہفتے میں پکا ثبوت لاؤں گا“ شبیر نے منہ بنایا۔

گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ زاہد نے اس گفتگو میں زیادہ حصہ نہیں لیا تھا بس ہوں ہاں کرتا رہا تھا۔ چائے آ گئی تو سب بات چیت چھوڑ کر ادھر متوجہ ہو گئے۔ بہر حال اس میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چاندی کے بیک گراؤنڈ کا بھی پتہ نہیں ہے اور وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جن سے جسم فروشی کے مکروہ دھندے کی بو آتی ہے لہٰذا ایسی عورت کو جلد از جلد محلے سے نکال دینا چاہیے۔ اس کے مکان مالک عبدالمالک سے بھی بات کرنی چاہیے کہ اس نے ایسی عورت کو مکان کرائے پر کیوں دیا اور اس سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ فی الفور اسے مکان سے بے دخل کر دے۔

میٹنگ کے بعد سب مطمئن ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ زاہد دل ہی دل میں شکر ادا کر رہا تھا کہ کسی نے چاندی کو اس سے لفٹ لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے دل میں ایک تجسس بھی پیدا ہو گیا تھا۔ محلے داروں کا شک صحیح ہے یا وہ خواہ مخواہ اس عورت کو بدنام کر رہے ہیں۔ وہ لا شعوری طور پر چاندی کے گھر پر نظر رکھنے لگا تھا۔ وہ تو رہتی بھی اسی کی گلی میں تھی۔ آتے جاتے اس کی نظر چاندی کے دروازے پر پڑتی تھی۔ ایک دن شام کو جب وہ گھر سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ چاندی کا دروازہ کھلا ہے۔ پھر اس دروازے میں سے ایک برقع پوش عورت باہر نکلی۔ چال ڈھال سے وہ چاندی ہی لگتی تھی لیکن وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2