صحت کے شعبے میں ناکامیوں کی داستان


ڈاکٹر عارف آزاد کی کتاب PATIENT PAKISTAN

پر تبصرہ!

غالباً صحت اور تعلیم پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے شعبے ہیں۔ ان شعبوں پر ریاستی اخراجات بہت ہی کم ہیں جو بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے قطعی ناکافی ہیں۔ اسی لیے سرکاری اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت ہمیشہ سے بہت خراب رہی ہے۔

یہ کوتاہی صرف اس لیے نہیں کہ ریاست کی ترجیحات غلط ہیں بل کہ اس لیے بھی ہے کہ ان معامالات پر مجموعی توجہ ہی ناکافی ہے جیسا کہ ہم حالیہ پولیو کی ٹیکہ لگانے کی مہم کی مخالفت میں دیکھ چکے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ انہیں صحت کے مسائل کا شعور ہی نہیں دیا گیا اور

اب اگر ریاست ایسا کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اب میڈیا کو ہی دیکھ لیجیے۔ اخبارات اور ٹی وی سے لے کر سماجی میڈیا تک صحت اور تعلیم کے معاملات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آپ ایک کے بعد ایک چینل بدلتے جائیں اور شاید ہی کسی چینل پر آپ ان موضوعات پر کوئی پروگرام یا گفت گو ہوتے دیکھ سکیں گے۔ یہی حال اخبارات کا بھی ہے جو زیادہ تر سیاسی اور کچھ حد تک تفریحی یا کھیلوں کی خبریں دیتے ہیں۔ اردو اور انگریزی اخبارات کے اداریوں والے صفحات بھی دیکھ لیجیے وہاں بھی یہی کچھ ہے۔

سیاسی و معاشی مضامین کے علاوہ آپ کو شاید ہی کچھ پڑھنے کو ملے۔ ڈاکٹر عارف آزاد صحت کے موضوعات پر بڑی باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب

PATIENT PAKISTAN

صحت سے متعلق موضوعات پر ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر عارف آزاد خود میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور پھر عوامی صحت اور پالیسی میں ماسٹرز کی سند بھی حاصل کرچکے ہیں اس لیے غالباً اس موضوع پر لکھنے کے لیے وہی بہترین لکھاری تھے۔

اس کتاب میں پچاس سے زیادہ چھوٹے بڑے مضامین اور مقالے ہیں جنہیں گیارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان ابواب کے عنوانات بیماریوں اور صحت کے قوانین سے

لے کر شرح اموات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پہلا باب سب سے طویل ہے جس میں دس مضامین ہیں جن کا تعلق پالیسی سے ہے۔

ڈاکٹر آزاد اپنی بات کا آغاز اس گفت گو سے کرتے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں کے صحت سے متعلق وعدوں پر بحث کی گئی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں پاکستانی جی ڈی پی کابہ مشکل ایک فیصد صحت پر حکومت خرچ کرتی ہے۔ اگر بالکل درست اعدادو شمار دیے جائیں تو صرف اعشاریہ چھ یا اعشاریہ سات سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ گوکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بار بار وعدے کرتی ہیں کہ وہ صحت کے اخراجات میں اضافہ کریں گی۔

مگر جب وہ اقتدار میں آجاتی ہیں تو غالباً چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپاتیں کیوں کہ وہ مجبور ہوتی ہیں کہ بجٹ کا بڑا حصہ غیر پیداواری اخراجات مثلاً قرضوں کی ادائیگی اور دفاع یعنی جنگ کی تیاریوں پر خرچ کریں۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر عارف آزاد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا حوالہ دیتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کا بھی جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ دو سے ڈھائی فیصد جی ڈی پی کا حصہ صحت پر خرچ کریں گی۔ جب کہ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اسے پانچ فیصد تک لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ تمام جماعتیں مختلف اوقات میں اقتدار میں آتی رہی ہیں۔ مگر کبھی بھی اپنے وعدے پورے نہ کرسکیں۔ ڈاکٹر آزاد ٹیکوں کی مہم کی بھی مثال پیش کرتے ہیں جو اے این پی اور جے یو آئی ایف کے سوا تمام جماعتوں کے منشوروں کا حصہ تھی۔ غالباً اے این پی اور جے یو آئی ایف نے اس لیے صرف نظر کیا کہ ان کے علاقوں میں ٹیکوں کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔

اس کتاب کا پانچواں باب قوانین کے بارے میں ہے اور آٹھواں با ب صحت کے اچھے تجربات کے بارے میں ہے۔ یہ دونوں باب بہت معلوماتی ہیں اور ان موضوعات پر تفصیلی مواد مہیا کرتے ہیں۔ یہ بات بڑی الم ناک ہے کہ دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کی تعدادمیں سالانہ پندرہ سے بیس کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے اور اس سے اموات بھی تقریباً پانچ لاکھ تک ہوتی ہیں۔ صرف پاکستان میں متاثرہ مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے۔

ان میں ہر سال تقریباً اٹھائیس ہزار نئے متاثرین کا اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں مصر وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تناسب یعنی دس سے پندرہ فیصد باشندے اس مرض کا شکار ہیں۔

گوکہ مصر کی حکومت نے دواؤں کی بڑی کمپنیوں سے کم قیمت پر دواؤں کی فراہمی کے معاہدے کرلیے ہیں پاکستان اس معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ ڈاکٹر آزاد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور عوام میں غذائیت کی کمی کے مد نظر حکومت پاکستان کو ہیپاٹائٹس سی کے تدارک کے لیے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔

عالمی ادارہ صحت غریب ممالک کو اس سلسلے میں مدد دینے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ ادارہ خود اب وسائل کی کمی کا شکار ہے اور گزشتہ کئی سال سے اس کے رکن ممالک نے اس کے وسائل میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ اب عالمی ادارہ صحت کا بیرونی عطیات پر انحصار اس کی خود مختاری پر اثر ڈال رہا ہے۔ چوں کہ اس کی اب WHO کی ساکھ زوال پذیر ہے اس لیے دوبارہ سرگرم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کا زوال عالمی صحت کے لیے بڑا تباہ کن ہوگا اور ڈاکٹر آزاد اپنی کتاب میں ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتے ہیں۔

کتاب کا دوسرا باب ”چھوٹے شکاری، بڑے مسائل“ اینٹی بائیوٹک سے مزاحمت کے بارے میں ہے۔

دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک ادویات بے اثر ہورہی ہیں اور پاکستان جیسے ممالک میں تو یہ مسئلہ مزید شدت سے سامنے آرہا ہے۔ کیوں کہ یہاں کے ڈاکٹر ایسی ادویات بے تحاشا تجویز کرتے ہیں اور ویسے بھی چوں کہ میڈیکل اسٹور بغیر نسخے کے اینٹی بائیوٹک بیچ دیتے ہیں اس لیے ان کا استعمال بہت زیاہ ہوا ہے۔

اس کتاب کا ایک اور کارآمد باب ملک میں ذیابیطس کے پھیلاؤ کے بارے میں ہے۔ گوکہ سرکای اعدادو شمار کے مطابق اس سے متاثرہ افراد کی تعداد صرف اسی لاکھ بتائی جاتی ہے دراصل یہ تعداد کروڑوں میں ہے اور بڑی تعداد میں بچے بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر چھٹا شخص ذیابیطس کا شکار ہے۔ دیگر ممالک میں اس مسئلے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ مگر پاکستان اس معاملے میں کاہلی اور عدم توجہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔

دیگر ممالک میں جسمانی حرکات اور ورزش پرلوگوں کو آمادہ کیا جاتا ہے اور اس کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں پاکستان میں خاص طورپر شہری علاقوں میں چہل قدمی یا دوڑ لگانے کی جگہیں کم کردی گئی ہیں۔ پارک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹر آزاد ہمیں یاددلاتے ہیں کہ متواتر ورزش ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔

جو لوگ جسمانی ورزش نہیں کرتے جلد یا بدیر جسم میں شکر کی کمی یا اضافے کا شکار ہوجاتے ہیں چاہے ان کی جینیاتی ساخت کیسی بھی ہو۔ ڈاکٹر آزاد کا یہ مشورہ ہے کہ شکر والے مشروبات پر بہت زیادہ محصول عائد کردینے چاہئیں۔

ایک اور بہت اہم باب جنس اور اموات کے بارے میں ہے جس میں جنسی اور تولیدی صحت اورماں اور بچوں کی اموات کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے خاندانی منصوبہ بندی ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ اس کتاب میں معلومات اور تجزیے سے بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور یہ نہ صرف عام لوگوں بل کہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پڑھنی چاہیے۔ کتاب کی نثر سلیس اور رواں ہے جس سے پڑھنے والوں کو بہت آسانی ہوتی ہے۔

یہاں یہ تجویز دینی ضروری ہے کہ اس کتاب کو ملک کے کتب خانوں میں خرید کر رکھا جانا چاہیے۔ خاص طورپر میڈیکل کالجوں اور نرسنگ کے اداروں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).