عمران خان جرات و بہاردی سے کام لیں، گھبرانا نہیں


پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ترقی کرنے کی بجائے دن بدن ملک کی تنزلی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش جیسا ملک جو کبھی مغربی پاکستان پر بوجھ قرار دیا جاتا تھا۔ معاشی طور پر پاکستان سے آگے ہے۔ ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف کیوں گئے ہیں۔ پاکستان کے عوام اب اس سوال کا جواب پوچھ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں جنہوں نے اپنے محل تو بنائے ہیں۔ ان کے خاندان تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر گئے ہیں اور ملک کا بچہ بچہ مقروض ہو گیا ہے۔

ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بجلی نہیں ہے۔ پانی، گیس نہیں ہے۔ کیا قرضے عوام کی حالت سدھارنے پر خرچ ہوئے تھے۔ اگر نصف صدی کے بعد ملکی تاریخ میں یہ موڑ بھی آیا ہے کہ حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ ملکی خزانہ کیوں لوٹا گیا۔ کرپشن اور بدیانتی کیوں کی گئی ہے۔

تو یہ تاریخ کا ایک بہترین موڑ ہے۔ جس کا انتظار کئی دہائیوں سے عوام کر رہے تھے۔ نواز شریف سمیت تمام سیاسی ایسے مخالفین جو مقدمات کی زد میں ہیں ان کے خلاف حکومتی ایکشن درست ہے۔ یہ بہت ضروری تھا۔ کسی نے توپہل کرنا تھی۔ عمران خان نے یہ قدم اٹھا لیا ہے۔ کارروائیاں نرم ہی سہی، مگر ابتدا تو ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کو بھی فوری روکنے کی ضرورت ہے۔ ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے ابو کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو کیا علم ہے کہ ایک عام آدمی کے حالات کار کیا ہیں۔ اگر ان کے بڑے جو کئی بار ملک کے حکمران رہے ہیں وہ مسائل حل نہیں کر سکے ہیں تو ان کے پاس کون سے الہ دین کا چراغ ہے کہ وہ عام عوام کے مسائل حل کر دیں گے۔ حکمرانوں کے بچے ہیں۔ حکمرانی کریں گے۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر احتسابی عمل سے گزرنے تک پابندی عائد کر دی جائے۔ الیکشن کمیشن صرف اس پارٹی کو سرگرمیوں کی اجازت دے۔ جس کے عہدے دار کسی مقدمہ میں ملوث نہیں ہیں اور ہی ان پر مقدمات درج ہیں۔ اس اختسابی عمل سے گزرنے سے قبل کسی سیاسی جماعت کو جلسے و جلوس کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ عمران خان اور حکومتی ٹیم پر اعتراض ہیں کہ وہ بھی چور ہیں، کرپٹ ہیں۔ ناہل ہیں۔ نالائق ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ چھوٹے چور ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان اتنی دیانت دار اور صالح ٹیم کہاں سے لاتے۔ جس ملک میں دودھ میں بال صفا پاوڈر ملا کر فروخت کیا جائے، گائے کے گوشت کی جگہ گدھے کا گوشت فروخت ہو۔ اس ملک میں صالح حکومتی ٹیم کی بات کرنا مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

یہاں بڑے اور چھوٹے چور کی تخصیص کافی ہے۔ عمران خان انتظامیہ کی شاندار شروعات ہیں۔ کسی کو چھوڑنا نہیں ہے۔ شاباش عمران خان۔ آج اگر بڑے چوروں کے خلاف ایکشن ہوگا تو چھوٹے چور تائب ہوں گے اور بڑے چور نہیں بن سکیں گے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی باقیات کا خاتمہ ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔ اگر کسی کو یقین نہیں ہے تو وہ بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کو دیکھ لے اور بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے فارمولے کا مطالعہ ضرور کرلے۔

جولوگ ملائیشیا کی معاشی نمو کی مثالیں دیتے رہے ہیں۔ ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر کہتے رہے ہیں۔ وہ بھی مہاتیر محمد کا طرز حکمرانی دیکھ لیں تو انہیں اس امر کی شہادت مل جائے گی کہ ملکی ترقی کے لئے پہلا قدم کرپٹ اور قابض مافیا سے پاک کرنا ہے۔ صد شکر ہے کہ پاکستان میں بھی عمران خان کی شکل میں ملکی ترقی کا معماربرسراقتدار ہے۔ جس نے حقیقی معنوں میں ملکی ترقی پر کام کا آغاز کیا ہے۔ حکومت بے نامی اور نامی اثاثے ضبط کرے، رائے ونڈ محل اور آصف زرداری کے بحریہ ٹاون کے گھروں سمیت کنال سے زیادہ تمام گھروں کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے۔ عمران خان صاحب! گھبرانا نہیں، جرات سے کام لیں۔ بہادری کا مظاہرہ کریں۔ جو کام شروع کیا ہے اگر اس میں ناکام ہوئے تو پھر آپ انتقام کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).