انڈیا: میرٹھ کے وہ ’بارڈر ایریاز‘ جہاں ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف ہندو رہتے تھے


میرٹھ کا پرہلاد نگر آج کل سرخیوں میں ہے۔ ایک ٹی وی چینل کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے ہندو اپنے گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ وہ آپنے ارد گرد رہنے والے مسلمانوں سے پریشان ہیں تاہم مقامی لوگ اور ضلعی انتظامیہ اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ بی بی سی ہندی نے ان دعوؤں کی سچائی معلوم کرنے کے لیے میرٹھ سے ایک گراؤنڈ رپورٹ بھی آپ تک پہنچائی ہے۔ ہماری ورک لائف انڈیا ٹیم کے ساتھی سہیل حلیم بھی انھی علاقوں میں رہتے تھے، وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

اسے اتفاق ہی کہیں کہ میرٹھ کے جو علاقے آج کل بے وجہ سرخیوں میں ہیں وہاں میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا ہے۔

پٹیل نگر، خیر نگر، جلی کوٹھی، پرہلاد نگر اور سٹیٹ بینک کالونی یہ سب میرٹھ کے ’بارڈر ایریاز‘ ہیں۔ ایک طرف مسلمان رہتے ہیں یا رہتے تھے اور دوسری طرف ہندو۔

سچ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کے قریب رہنے سے ڈرتے ہیں اور یہ کوئی نئی یا چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔ انڈیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایسا ہوتا ہے بس لوگ کھل کر اعتراف کرنے سے بچتے ہیں۔

جب امن ہو تو زیادہ تر لوگ اچھے ہمسایوں کی طرح مل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں اور جب ’شہر میں ٹینشن‘ ہو، ماحول بگڑ جائے، تو دونوں کو لگنے لگتا ہے کہ آج کی رات ہی بس قیامت کی رات ثابت ہو گی۔

میرٹھ میں ایسا دوسرے شہروں سے ذرا زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً برابر ہے اور کوئی ایک فرقہ دوسرے پر حاوی ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اب بھی ’اپنے علاقوں‘ سے باہر رہتے ہوں۔

لیکن شہر پھیل رہا ہے، لوگوں کی آمدنی پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہی ہے، وہ شہر میں ہی رہ کر یا کہیں باہر جا کر بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور یہ بات دونوں کے لیے لاگو ہوتی ہے۔

میرٹھ میں ہمیشہ سے ہندوؤں کے بہت سے پاش علاقے تھے۔ مثال کے طور پر ساکیت، وکٹوریا پارک یا بیگم باغ جہاں میرے زیادہ تر دوست رہتے تھے اور مسلمانوں کا ایک بھی نہیں۔ تو ہم جیسے لوگ بھی، جن کے پاس وسائل تو تھے، انھی علاقوں میں رہنے پر مجبور تھے۔

اس لیے ہمارا گھر بھی ایک گنجان علاقے میں تھا۔ گندے اور تنگ راستے اور چاروں طرف کباڑ کا کاروبار۔ یہ پرانے نوابوں کی ایک کوٹھی تھی جس کا ایک بڑا حصہ میرے والد نے سنہ 1972 میں نواب اسلام مجتبی خان سے خریدا تھا۔ اس وقت تک نوابین اور اس شاندار کوٹھی دونوں ہی پر برا وقت آ چکا تھا۔ مسلمانوں کی باقی آبادیوں کی طرح ’کوٹھی جنت نشاں‘ میں بھی جنت کا کوئی نشان باقی نہیں تھا۔

لیکن ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ کوٹھی کے احاطے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی آبادی بھی ختم ہو جاتی تھی۔ ’جنت نشاں‘ کی ایک دیوار مڈل کلاس ہندوؤں کی آبادی پٹیل نگر سے ملتی تھی، ان کی کھڑکیاں ہمارے گھر کی طرف کھلتی تھیں اور دروازے دوسرے ہندوؤں کے گھروں کی طرف۔

اس لیے آپس میں ملنا جلنا بالکل نہیں تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جس کا آج کل پرہلاد نگر کے ساتھ نام لیا جاتا ہے۔

تو آپ کو وقت میں تھوڑا پیچھے لے جاتے ہیں۔ سال 1987 میرٹھ مذہبی تشدد کی آگ میں جل رہا تھا۔ یہ ہی وہ فساد تھا جس کے بعد ہاشم پورہ اور ملیانا کا نام پوری دنیا میں سنا گیا۔ اس موسم گرما میں بہت لوگ قتل ہوئے۔

لیکن وہ الگ کہانی ہے۔

ہمارا گھر بھی ’بارڈر‘ پر تھا اور ہمارے ہندو ہمسائیوں کا بھی! افواہوں کا بازار گرم رہتا ’آج رات پٹیل نگر سے حملہ ہونے والا ہے، میں نے خود دیکھا ہے کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے ہیں‘ اور یہ ہی خوف دوسری طرف بھی۔

گرمیوں کا موسم تھا۔ ہمارے گھر کے باورچی خانے میں سیمنٹ کی جالی لگی ہوئی تھی جس میں سے ہم جھانک کر دیکھتے کہ ’ادھر والے‘ کیا کر رہے ہیں۔ کبھی پوری رات بس یوں ہی نکل جاتی، کبھی بہت خاموشی سے ہندو لڑکے اپنی چھتوں پر پتھر جمع کرتے ہوئے نظر آتے۔ ہمارے محلے کے لڑکے بھی اسی طرح اپنے دفاع کی تیاری کرتے۔

یوں ہماری راتیں گزرتی تھیں۔

رات کو پورے محلے کی عورتیں اپنے بچوں کو لے کر ہمارے گھر کے کشادہ دالان میں ہی سوتی تھیں اور ایسے وقت کے خوف سے ہی لوگ ’اپنے‘ ہی محلوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔

لیکن کوٹھی ’جنت نشاں‘ کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور جب راستہ اتنا تنگ ہو گیا کہ گاڑی گھر تک لے جانا مشکل ہو گیا تو ہمیں کسی بہتر جگہ کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ کچھ پرہلاد نگر سے نقل مکانی کرنے والوں کی طرح۔

انڈیا میں یوں گھر بدلنے کا زیادہ رواج نہیں ہے اس لیے اگر خاص طور پر چھوٹے شہروں میں کوئی گھر بدلتا ہے تو اس کی دو ہی وجہ ہوتی ہیں، یا تو وہ اپنے علاقے سے عاجز آ گیا ہے یا اس کے اچھے دن آ گئے ہیں۔

میری فیملی نے سٹیٹ بینک کالونی میں گھر خریدا جو پہلے 100 فیصد ہندوؤں کی آبادی تھی۔ بڑے کشادہ گھر اور صاف ستھری چوڑی سڑک۔ سٹیٹ بینک کالونی بھی اتفاق سے آج کل سرخیوں میں ہے کیونکہ وہاں اب ہندوؤں کے چند ہی گھر باقی رہ گئے ہیں۔ ایک بڑا مندر بھی ہے جو اب زیادہ تر بند ہی رہتا ہے لیکن ایک پجاری صبح سویرے آ کر وہاں ٹیپ ریکارڈر پر بجھن لگانا نہیں بھولتا۔ کالونی کے ایک طرف مشہور نوچنڈی میلہ لگتا ہے لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی ہے، وہ بھی اسلام آباد! ایک اور ’بارڈر۔‘

اس لیے ہندو وہاں رہنا نہیں چاہتے اور آہستہ آہستہ اپنے مکان بیچ کر دوسرے ’زیادہ محفوظ‘ علاقوں کو منتقل ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے کسی مجبوری میں اپنے گھر نہیں بیچے ہیں اور نہ کسی جلد بازی میں۔ یہ سلسلہ 30 سال سے جاری ہے، وہاں تقریباً 60 مکان ہیں جن میں سے تین میں اب بھی ہندو رہتے ہیں۔

یہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی بات ہے اس لیے بینک کالونی میں زمین مسلمانوں کی آبادی والے کسی بھی دوسرے علاقے سے کہیں زیادہ مہنگی ہے۔

بینک کالونی کی ہی طرح پٹیل نگر کے بھی کئی مکان مسلمانوں نے خرید لیے ہیں۔ جو گھر ’دوسروں‘ کی آبادی کے سب سے قریب ہوتے ہیں، ان میں رہنے والے ہندو ہوں یا مسلمان، خوف کے سائے میں ہی زندگی گزارتے ہے۔ ہمشیہ نہیں اور ہر جگہ نہیں لیکن میرٹھ (جیسے شہروں) میں یہ ڈر تو رہتا ہی تھا کہ شہر کے حالات نہ جانے کب خراب ہو جائیں۔

ان علاقوں سے لوگوں کے ’پلاین‘ کی بس اتنی سی کہانی ہے۔ پرہلاد نگر اور پٹیل نگر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان میں کہیں ہندو رہتے ہیں اور کہیں مسلمان!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp