جج صاحب کی ویڈیو جعلی ہو سکتی ہے مگر تاریخ نہیں


بے رحم تاریخ کی کوئی مجبوری، مصلحت نہ مفاد۔ اس کے ترازو نے ڈنڈی مارنا سیکھا ہی نہیں۔ تاریخ نے اگرجسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو استنجے کے ڈھیلے سے زیادہ اہمیت نہیں دی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے سزائے موت کے فیصلے کو بھی اپنے کوڑے دان ہی کی راہ دکھائی ہے۔ بے غرض تاریخ نے اگر پرویزمشرف کی طرف سے 3 نومبر 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کا دن ہماری تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے تو 28 نومبر 1997ء کو چیف جسٹس سجادعلی شاہ کی عدالت پرحملے کو بھی سنہری حروف میں لکھ کر اپنے شوکیس میں نہیں سجا رکھا۔ وائے حسرتا! شاندارماضی رکھنے والوں کو آزادی کی سات دہائیوں بعد بھی سمجھ نہ آ سکی کہ تاریخ قوموں کے کن اقدامات کو اپنے شوکیس میں سجاتی ہے اور کن کرتوتوں کو اپنے گٹرمیں بہا دیتی ہے۔

اگرچہ جج صاحب اس ویڈیو کو جعلی، جھوٹی اور مفروضہ قرار دے چکے ہیں، مگر مریم نواز کی طرف سے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ آڈیو اور ویڈیو سامنے لانے کے اقدام نے ایک مرتبہ پھرعدلیہ ہی نہیں، ہمارے لیڈروں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ متنازعہ ویڈیو میں منصف اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ انہیں بلیک میل اور پریشرائز کر کے لیا گیا۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان نے جواب آں غزل کے طور پر کہا ہے کہ دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے اپنا چہرہ صاف ہونا ضروری ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ ایک مرتبہ اپنی عدلیہ کے دبنگ جج جسٹس کاظم علی ملک سے ان کی سروس کے حوالے سے پوچھاتھا کہ اس دشت کی سیاحی کا نچوڑ کیا ہے ؟ کم گو منصف نے گلا کھنگھار کر جواب دیا ”طویل عمر گزری تو پھر یہ رازکھلا کہ بڑے بڑے مناصب پر بہت چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں“

ایک بات طے ہے کہ جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا، انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے سبھی شوقین ہیں مگردیانت دار اور کھرے جج کسی کو وارا نہیں کھاتے۔ عدل وانصاف کے بلند وبانگ دعوے اپنی جگہ مگرعملاً سب کو نسیم حسن شاہ اور ڈوگر برانڈ جج ہی سُوٹ کرتے ہیں۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ یہاں کوئی بھی الیکشن نہیں ہارتا، ایک جیت جاتا ہے اور دوسرے کے ساتھ دھاندلی ہوتی ہے۔ اسی طرح عدالتی فیصلہ بھی ہمارے حق میں آئے تو جج شیرہے، ورنہ ہیر پھیر ہے۔

 قطع نظراس کے ارشد ملک کی ویڈیو اصلی ہے یا جعلی، چونکہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان دنگل اس ویڈیو سے شروع ہوا ہے، لہذا اسی سابق جسٹس کاظم علی ملک کے دو فیصلوں کی روشنی میں ہر دو جماعتوں کے کردارکی بات کرتے ہیں۔ 2013 ءکے عام انتخابات کے بعد الیکشن ٹربیونل کے اس جج نے این اے 125 میں پی ٹی آئی کے امیدوارحامد خان کی انتخابی عذرداری کی سماعت کی تھی۔ جج صاحب نے حامد خان کے وکلاء کی مرضی کے برعکس شہادت ریکارڈ کیے بغیر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا حکم دینے سے انکار کر دیا۔

اس موقع پرعدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے میں ناکامی پر پی ٹی آئی کے فاضل وکلاء عدالت میں غیرقانونی رویہ اپناتے ہوئے اتنا چیخے اور ٹربیونل کے بارے میں ایسی نازیبا زبان استعمال کی کہ کاظم ملک نے مزید سماعت سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ میری پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی ایسا موڑ نہیں آیا، جس میں جج کے ساتھ سیاسی تنازع کے کیس میں کسی فریق نے من پسند فیصلہ لینے کی خاطرایسی گھٹیا زبان استعمال کی ہو (سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 2015 ء میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے قانونی نوٹس میں اس فیصلے کا تفصیلی ذکر کیا تھا) تب ن لیگ نے جج ساڈا شیر ہے اور تحریک انصاف نے ہیر پھیر کے نعرے بلند کیے تھے۔

پھر این اے 122 لاہور میں ایازصادق سے ہارنے والے عمران خان کی انتخابی عذرداری کی سماعت بھی اسی جج کاظم علی ملک نے شروع کی۔ جج صاحب کے میاں برادران سے ذاتی تعلقات ڈھکے چپھے نہیں تھے، نیز پی ٹی آئی کا این اے 125 کی انتخابی عذرداری کی سماعت کے دوران رویہ بھی سب کے سامنے تھا۔ ایسے میں جہاں ن لیگ کو اپنے حق میں فیصلہ آنے کا یقین تھا، وہاں عمران خان کو بجا طور پر تحفظات بھی تھے۔ اس موقع پر دونوں جانب سے عدالت پر جو پریشر تھا، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔

 یو ٹیوب آج بھی گواہ ہے کہ ایک نیوز چینل پر انٹرویو کے دوران کاشف عباسی کی طرف سے بار بار پریشر کے سوال کے جواب میں جج صاحب نے کڑک دار پنجابی میں کہا ”جمیاں ای کوئی نئیں مینوں پریشرائز کرن والا“ (مجھے پریشرائزکرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا) نیوز چینلز پر اس جملے کی بازگشت تادیر سنائی دیتی رہی۔ عدالت نے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا انتخاب بے ضابطگیوں کی بنا پر کالعدم قرار دیا تھا اور سپیکر نا اہل ہو گئے توپی ٹی آئی پر منکشف ہوا کہ ان کا معتوب جج تو اصل میں شیر ہے۔

 تب ہیروئن فیم رانا ثناءاللہ نے الزام لگایا کہ جج صاحب نے اپنے آبائی علاقے میں اپنے بیٹے کے لیے ن لیگ کا ٹکٹ مانگا تھا اور انکار پر ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ کاظم علی ملک فیصلے کے بعد ملازمت چھوڑ چکے تھے۔ انٹرویو میں جب ان سے رانا ثناءاللہ کے الزام اور فیصلے کے لیے پریشر کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے مضبوط لہجے میں یہ جملہ کہا کہ مجھے پریشرائز کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے میرٹ پر تیس فیصلے ن لیگ کے حق میں کیے تو شیر تھا اوراسی میرٹ پرایک فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں کیا تو ہیرپھیر ہو گیا۔

کالم کا دامن محدود ہے مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات و واقعات کا بھی ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے، بد قسمتی سے جن کی بنا پر پانامہ کیس میں عدلیہ کے تاریخی فیصلوں کو متفقہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی اور 2017 ء میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو پاکستان بار کونسل کے سیمینار میں کہنا پڑا کہ آپ فیصلے میں دی گئی دلیل کو کمزور کہہ سکتے ہیں مگرہماری نیت پر شبہ نہ کریں۔ سابق چیف جسٹس کو ایسی دردمندانہ باتیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

 3 اپریل 2016 ء کو عالمی کنسورشیم برائے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ کے پانامہ پیپرز نے دنیا بھر کی طرح پاکستا ن میں بھی بھونچال پیدا کردیا۔ الزام یہ تھا کہ نواز شریف کے بچوں نے 1990 کی دہائی میں لندن فلیٹس اس وقت حاصل کیے جب وہ وزیراعظم تھے۔ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184 ( 3 )کے تحت درخواستیں دائر کی گئیں۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے دو ججوں نے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دیا جبکہ تین ججوں نے الزامات کی سماعت کے لیے جے آئی ٹی تجویز کی۔ جے آئی ٹی کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے، تاہم اس نے اپنا کام جاری رکھا اور نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف رپورٹ دی، جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 28 جولائی کو متفقہ طور پر نواز شریف کو غیر ملکی اقامہ رکھنے پر نا اہل قرار دیا۔

اس کے بعد محمد حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نا اہلی کی درخواستیں دائر کیں جن میں ہر دو رہنماؤں پر اثاثے چھپانے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ درخواست گزار نے بنی گالہ کی زمین پر اعتراضات کے علاوہ عمران خان پر نیازی سروسز لمیٹڈ کو چھپانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے واحد اور حقیقی بینیفشری عمران خان خود ہیں اور یہ ان کی آف شور کمپنی ہے۔

 مدعی نے بیان دیا کہ عمران خان کے وکلاء نے لندن میں فلیٹ کی خریداری کا اعتراف کیا ہے، تاہم انہوں نے یہ فلیٹ اپنے کسی انکم ٹیکس یا کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ درخواست گزار نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی ذرائع سے فنڈز حاصل کیے، جس کی وجہ سے یہ جماعت پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کے آرٹیکل 2 (C۔ iii)کے تحت کالعدم قرار دینی چاہیے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 15 دسمبر 2017 ء کو حکم سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف پٹیشن کو خارج کر دیا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ( 1۔ f)کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نا اہل قرار دے دیا۔

یہاں پر ایک مکتبہ فکر عمران خان کی نا اہلی کا کیس خارج ہونے کو انصاف کا دوہرا معیار قرار دیتا رہا ہے۔ کہا جاتا رہا کہ ایک جگہ بینفشل اونر ہونا نا اہلی کا سبب ہے جبکہ دوسری جگہ اس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے 2002 کے انتخابات میں اپنے کاغذات نامزدگی میں 1983 ءسے اپنے ملکیتی لندن فلیٹ کو ظاہر کیا جبکہ 1997ء کے انتخابات میں اسے ظاہر نہیں کیا۔ یوں عمران خان کو بھی اسی طرح نا اہل قرار دینا چاہیے جس طرح نواز شریف کو اس بنا پر نااہل قرار دیا گیا کہ انہوں نے وہ تنخواہ جس کے وہ حقدار تھے، اگرچہ انہوں نے وصول نہیں کی مگر اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کی۔

اسی طرح دوسرے مکتبہ فکر کو حدیبیہ کیس کی اپیل خارج ہونے پر افسوس ہوا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ حدیبیہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے جے آئی ٹی کی ساکھ ختم کر دی ہے۔ کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں حدیبیہ کیس پر اضافی شواہد ریکارڈ پر لانے کے جو دعوے کیے تھے وہ نیب عدالت میں کیوں پیش نہیں کر سکا؟

بات لمبی ہو گئی۔ مختصر یہ کہ اگر ارشد ملک کی ویڈیو اصلی ثابت ہوتی ہے تو وہ ن لیگ کے لیے شیر اور پی ٹی آئی کے لیے ہیرپھیر ہیں اور اگر ویڈیوجعلی نکلی تو معاملہ الٹ۔ یہی ہمارا معیار انصاف ہے، البتہ بے رحم تاریخ کی کوئی مجبوری، مصلحت نہ مفاد۔ اس کی لہریں بڑی منہ زورہوتی ہیں۔ تاریخ کاچہرہ مسخ کرنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے، اپنا ہی منہ کالا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).