جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا


قادیانیوں کے خلاف تحریک میں شدت پیدا ہو جانے سے فروری 1953 میں امن و امان کی صورت حال قابو سے باہر ہو گئی تھی اور سول حکومت نے ایک موثر حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے لاہور فوج کے سپرد کر دیا تھا۔ اس نازک موقع پر مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ”قادیانی مسئلہ“ شائع کیا، مگر مارشل لا کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور جماعت اسلامی کے پچاس سے زائد اکابرین گرفتار کیے گئے۔

فوجی عدالت کے سربراہ کرنل تھے۔ میں بھی تاریخی اہمیت کا مقدمہ سننے وہاں گیا تھا۔ مولانا مودودی کی طرف سے جناب چودھری نذیر احمد خاں پیش ہوئے جو فوجداری معاملات میں چوٹی کے وکیل تھے۔ انہوں نے کرنل صاحب سے کہا کہ آپ پمفلٹ کے ان مندرجات کی نشان دہی کریں جو مارشل لا کی زد میں آتے ہیں۔ انہوں نے اٹک اٹک کر دو چار غلط ملط فقرے پڑھے جن میں کہا گیا تھا کہ ایک بڑے حساس مسئلے کو طاقت کے زور سے حل کرنا غیر دانش مندی اور ظلم ہو گا۔ حاضرین کرنل صاحب کی بصیرت پر ہکابکا رہ گئے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

خوش قسمتی سے ہمارے عزیز دوست جاوید نواز نے ہمیں وہ مضمون بھیجا جو میاں طفیل محمد نے روزنامہ نوائے وقت میں 21 ستمبر 2011 کو بعنوان ”مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ جیل سے پھانسی کی سزا تک“ سپرد قلم کیا تھا۔ میاں صاحب اس وقت جیل کے اندر مولانا کے ہمراہ تھے جب انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ قیم جماعت اسلامی کی حیثیت سے وہ لکھتے ہیں : ”شہر لاہور میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ہم لوگوں کو گرفتار کر کے لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا۔

ہم دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور چودہ، پندرہ فوجی، جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ ہم باقی نماز مکمل کر چکے، تو ان میں سے بڑے فوجی افسر، جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا، اس نے پوچھا:“ مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟ ”مولانا نے عرض کیا“ میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں ”، تو اس نے کہا:“ آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی۔ آپ صرف گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ ”مولانا نے بلا توقف فرمایا:“ میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔ زندگی اور موت کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی، اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا، تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ ”اس کے بعد اسی افسر نے کہا:“ آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ ’‘ تسنیم ”میں جو بیان دیا ہے، اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔“

کوئی آدھ گھنٹے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھی آئے اور کہنے لگے : ”مولانا! پھانسی گھر جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔“ اس پر مولانا مودودی نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے، سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتار کر سیاہ گرگابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔ اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، مولانا مودودی صاحب کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے، کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے اور بے تحاشا روتے جاتے۔

چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے آئے اور میں بھی روتا ہوا ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزر گئی۔ اگلی صبح ایک وارڈر نے آ کر بتایا: ”مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے، وہاں کا لباس پہنا، جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے لینے لگے۔

“ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خاں نیازی کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل کر دی گئی ہے، چنانچہ مولانا مودودی کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ ”

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی یہ عمرقید عملاً چودہ سال قید بامشقت تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا، لیکن مارشل لا کے تحت دیے ہوئے سارے احکام اور سزائیں انڈمنٹی ایکٹ کے تحت برقرار رکھی گئی تھیں۔ حکومت مولانا کو جیل میں رکھنا چاہتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے ایسے اسباب پیدا فرما رہے تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے طیش میں آ کر دستور ساز اسمبلی 24 ؍اکتوبر 1954 کو توڑ ڈالی اور اپنے فیصلے کے لیے آئینی سند حاصل کرنے کی خاطر انہوں نے فیڈرل کورٹ کی فصیل میں بہت گہری نقب لگائی، چنانچہ چیف جسٹس محمد منیر نے ٹیکنیکل بنیاد پر ایک ایسا فیصلہ سنایا جس کے باعث وہ انڈمنٹی ایکٹ بھی غیرقانونی قرار پایا جس میں مولانا کی سزا کو آئینی تحفظ دیا گیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے آ جانے کے بعد بھی حکومت نے مولانا کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔

جماعت اسلامی نے مولانا کی سزا کی منسوخی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں جناب منظور قادر ایڈووکیٹ کے ذریعے رٹ دائر کی جو منظور کر لی گئی اور یوں مولانا 28 مئی 1955 کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہو کر گھر آ گئے۔ وہ جس دھج سے مقتل میں گئے تھے، وہ شان سلامت رہی اور ہماری تاریخ عزیمت میں سنہری حروف میں لکھی جا چکی ہے۔ اس واقعے کے ساتھ ایک اور عجیب و غریب کرامت بھی وابستہ ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments