شیر، شیرو، گھوڑے اور گھگو گھوڑے


عمران خان کا “شیرو” امپورٹڈ گوشت کھاتا ھے اور اردو میں بھونکتا ھے… زرداری کے گھوڑے مربّہ کھاتے رہے… نوازشریف پر الزام ھے کہ ان کا شیر سب کچھ ہی کھا گیا لیکن 22 کروڑ سے زائد “گھگو گھوڑے” کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں اور کس زبان میں اپنا دکھڑا سناتے ہیں؟ اس کی ماضی میں کسی کو خبر رہی یا حال میں کوئی پُرسانِ حال ھے؟

بھٹو سے لے کر عمران خان اور ضیاء الحق تک نے روٹی، کپڑا، مکان اور اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا، درمیان میں بے نظیربھٹو اور نواز شریف نے لندن میں سرے محل اور “عربوں” کے فلیٹ خرید لئے …

جنرل مشرف نے احتساب کا نعرہ لگا کر تخت حاصل کیا لیکن تختہ کر کے بھاگ گیا، بہتی گنگا میں جنرل کیانی کے بھائیوں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے…

جب سے پاکستان بنا ھے ہر حکمران نے صرف ایک ہی نعرہ لگایا کہ “ملک کیلئے عوام قربانی دیں”… سوچنے والی بات یہ ھے کہ ہر بار عوام ہی قربانی کیوں دیں؟ … ہر سول اور فوجی آمر نے عوام کا ہی تیل نکالا ھے ماشاءاللہ عوام بھی اتنے ڈھیٹ ہیں کہ انکے اندر سے تیل ختم نہیں ہو رہا…

1985 میں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے صرف پچاس پیسے مٹی کا تیل فی لٹر مہنگا کیا تو عوام سڑکوں پر آگئے اور غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے نامزد ہونے والا وزیراعظم اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گیا….

اب سڑکوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والے اور عوام کو مژدہ سنانے والےکہ “آج کی رات جشن منائیں گے” کا نعرہ مستانہ بار بار لگانے والے خود تو ہر رات واقعی جشن منا رہے ہیں لیکن عوام کے “ماتم” کی خبر کیوں نہیں ہے ان کو؟

“نوازشریف اور زرداری نے “واقعی” ہی اس ملک کا کباڑہ کردیا تھا” لیکن عمران خان کو حکومت میں آئے ایک سال ہونے والا ھے اور اب یہ چورن بھی بکتا نظر نہیں آرہا ھے … جن جن کو پکڑا گیا ھے وہ صاف نظر آتا ھے کہ اس میں سیاسی انتقام کی جھلک بھی نمایاں ھے … رانا ثناء اللہ کو ماڈل ٹاؤن کیس میں پکڑا جاتا تو شاید “منی اتنی بدنام” نہ ہوتی لیکن منشیات والا کیس بھی بھینس چوری، سائیکل چوری جیسا ہی ثابت ہونے کا امکان ھے …

عمران خان نے 22 سال عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا لیکن اب خود تو ٹرک پر سوار ہوچکے ہیں عوام کو LED لائٹ کے پیچھے لگا دیا گیا ھے… اگر احتساب کرنا ھے تو پھر بلا امتیاز کریں صرف نوازشریف، شہباز شریف اور زرداری کے کیس برابر کرنے کے لئے جہانگیر ترین، علیم خان ،سبطین وغیرہ کے ڈرامے نہیں چلیں گے… نذر گوندل، پرویز خٹک اور جن جن کے خلاف نیب کیس ہیں ان کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے صرف چئیرمین نیب چوم چاٹ کر فارغ نہ کریں… سارے چوروں کی ہڈیوں سے گوشت الگ کرکے بھی مال نکالنا پڑتا ھے تو نکالیں، عمران خان کا اب یہ کہنا کہ “مال دو اور باہر چلے جاؤ” این آر او نہیں؟ اگر حکومت اور اپوزیشن کا کرپٹ ٹولا بچ نکلا تو پھر خود ہی اندازہ لگا لیں کہ عوام کی سوچ کیا ہوگی؟

ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ فردوس عاشق اعوان کے خلاف مشیر بنتے ہی انکوائری ٹھپ کردی جائے اور خود موصوف کا ہیلی کاپٹر کیس وزیر اعظم بنتے ہی داخل دفتر ہوجائے، عمران خان کو فواد چودھری کی “سائنس” 55 روپے کلومیٹر کے حساب سے ہی ہیلی کاپٹر کا کرایہ دے کر صادق امین کا سرٹیفکیٹ دوبارہ حاصل کرلینا چاہئے اس طرح عمران خان کی دور اندیشی بھی آشکار ہو جائے گی اور فواد چودھری کی “ہر پارٹی فِٹ” کی خصوصیت بھی … ویسے تو فردوس عاشق اعوان نے جس طرح اپنی گھن گرج سے فواد چودھری کی کمی پوری کی ھے کہ وہ بھی قابل رشک ہے…

فردوس عاشق اعوان کی “راج کماری” نے احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو لیک کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ھے کیونکہ فیصلہ ساز قوتیں اس وقت ان کے چچا سمیت زرداری اینڈ کمپنی کو بھی طرح طرح بتیاں دکھا رہی ہیں جہاں رنگ بازی کرتے ہیں وہاں “ریڈ سگنل” آجاتا ھے… اشرافیہ تو اپنے اپنے کھیل میں مگن ہیں لیکن عوام کو کیا کھلایا جا رہا ھے؟

عوام کو ہر روز پرانا ڈرامہ ختم ہونے پر نئی فلم سنا دی جاتی ھے اب چئیرمین سینٹ کی تبدیلی پر دو تین ہفتے پاگل بنایا جائے گا بندہ پوچھے کہ ان کو لے کر کون آیا تھا؟ جو لے کر آئے ہیں وہ بچا بھی لیں گے …

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چئیرمین سینٹ کو بچایا جارہا ھے تو اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہے اور اس کا فیصلہ بھی “ہنگامی بنیادوں” پر آنا ھے اس میں صراط مستقیم پر چلنے والوں کو نشانیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟

وکلاء برادری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افتخار محمد چودھری کو تو بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اس بار دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

ایک ہوتے تھے جسٹس شوکت صدیقی صاحب وہ بھی ہیرو بننا چاہتے تھے، جسٹس قیوم ملک کی آڈیو لیک ہوئی تو گھر جانا پڑا لیکن اب بھی آگے تو ایک ارشد ملک ہی ہیں لیک بھی ویڈیو ہوئی ھے لیکن پیچھے کون ھے اور گھر کون جاتا ھے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات رہ جاتی ھے جب جج اور چئیرمین نیب بھی پریس ریلیز جاری کرنا شروع کر دیں؟

غریب عوام اب 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کو بھول چکے ہیں، تبدیلی سرکار کو کوئی شک ھے تو اگست میں پہلی سالگرہ پر ریفرنڈم کرا لیں کہ عوام گھر اور نوکری چاہتے ہیں یا سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی؟ کیونکہ ایک سال میں نیا مکان تو کوئی نہیں بنا، نوکریاں بھی بیرون ممالک سے آنے والوں کو ہی ملی ہیں البتہ ہزاروں شہری بے گھر اور بیروزگار ہوئے، آزاد میڈیا کا نعرہ لگانے والوں نے پہلے میڈیا ہی کا گلا دبانا پسند فرمایا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ھے کیا؟

عوام کو نواز شریف کے “شیر”، عمران خان کے “شیرو” اور زرداری کے گھوڑے سے کوئی غرض نہیں ھے کہ وہ کیا کھاتے ہیں وہ امپورٹڈ گوشت کھائیں یا پاکستانی ہرن؟

عمران خان سے عوام چاہتے ہیں کہ جو خواب دکھائے گئے تھے ان پر نہیں ہونا چاہئے ایک اور نیا “یوٹرن”؟

اس ملک میں 22 کروڑ عوام کی حیثیت “گھگو گھوڑوں” سے زیادہ نہیں ہے یہ تعداد ہر دور میں کم زیادہ ہوتی رہی لیکن ان کی جنس نہیں بدلنے دی گئی کیونکہ ان پر مرضی چلانے والے آٹے میں نمک کے برابر رہے ہیں اور جس دن یہ شخصیات کے سحر اور وقت کے قہر سے آزاد ہو گئے اس روز ہی ان کو کالے گورے حکمرانوں سے حقیقی آزادی ملے گی اور پھر یہ “گھگو گھوڑے” نہیں رہیں گے ….

وقت ملے تو عالم لوہار کا گانا “بول مٹی دیا باویا تُوں کیوں نئیں بولدا” سنیں… وہ بھی کسی کو گھر بلا رہے ہیں، اللہ کرے مٹی کے باوؤں کی اکثریت بھی بول پڑے اور اُٹھ پڑے…. ویسے تو سوئے رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ستر سال ہی تو ہوئے ہیں ابھی …


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).