پاکستان میں اقلیتوں کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت


یسوع المسیح وہ واحدپاک ہستی ہیں جنہوں نے وقت کے حکمرانوں، مذہبی ٹھیکیداروں اور فقہی فریسیوں کو نہ صرف ان کی سیاہ کاریوں کا آئینہ دکھایا بلکہ، مظلوموں پرظلم و جبرکرنے والوں کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ نہایت جرات کے ساتھ فقہی فریسیوں کوسانپ اور سفید ی پھری قبروں سے تشبیہ دی۔ معاشرے کے کچلے اور رد کیے ہوؤں کو انصاف دلانے کے لئے استحصالی قوتوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنا الگ محاذ نہیں بنایا اور نہ ہی حکمرانوں کے خلاف دہشت گردوں کا ٹولہ بنا کر بغاوت کا اعلان کیا۔

بلکہ انہوں نے پیار ومحبت کا سپہ سالار بن کر بارہ شاگردوں پر مشتمل ٹیم تیار کی اور فرعونیت پر مبنی مذہبی اور حکمرانی نظام کو بدلنے کی کوشش کی۔ تاکہ دنیا میں انصاف، امن اور روا داری قائم ہو۔ اپنا اقتدار خطرے میں دیکھتے ہوئے وقت کے حکمرانوں نے یسوع المسیح پر بلاسفہمی کا الزام لگا دیا اور انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا۔ مگر انہوں نے قبر کے قفل توڑ دیے اور مردوں میں سے زندہ ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ سچائی اور محبت سب برائیوں پر حاوی ہے۔

بیشک سچ کڑوا ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہے۔ جان ہیتھیلی پر رکھنے کے مترادف ہے۔ دورِ حاضرہ بھی فرعونیت سے کچھ کم نہیں۔ یہاں بھی آج جو سچ کہتا، بولتا ہے یا لکھتا ہے۔ پہلے اْسکے اپنے قریبی دوست و احباب رسوائی کے خوف اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اوراْس کی زبان پر تالا لگا دیا جاتا ہے۔ اگر تو وہ حکمران، جسٹس، صحافی یا کوئی اہم عہدیدار ہے تو اسے غدار، باغی اور نجانے کیا کیا ا لقابات سے نوازا جاتا ہے۔

اسے موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جسے کچھ لوگ اسے واویلا کا نام دے دیتے ہیں۔ سچ بولنے پر آئے روزٹی وی چینلز بند کر دیے جاتے ہیں۔ اخبارات کے اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں۔ حکومت مخالفین سیاسی لیڈر ہوں توکوئی نہ کوئی کرپشن یا منشیات کا الزام لگا کر اسے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ نیب ایک ایسا آزاد ادارہ بن چکا ہے کہ عدلیہ بھی ان کے کیے فیصلوں پر نقطہ چینی کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ بیان ہے۔ کہ نیب اپنے مقدمات کو خود سنبھالے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ان سے خوش نہیں۔ کوئی نیب کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں یہ پرانی ریت چل رہی ہے کہ کسی کو بھی راستے سے ہٹانے کے لئے اْس پر گھٹیا اور جھوٹا الزام لگا جاتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس سارے سنیریو پر نظر ڈالی جائے توایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تو قوت ایسی ہے جس کا ہاتھ خان صاحب پر ہے، جو بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ ورنہ حکومت کا ایک سال بھی پورا ہونانا ممکن تھا۔

مستحکم حکومت اور معشیت نہ ہونے کی وجہ سے غریب عوام چیخ وپکار کررہی ہے۔ اس وقت گھر وں کی تعمیر ضروری نہیں معشیت مضبوط کرنے اور ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جس سے غریب کا چولہہ جل سکے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے لوگ نا جائز راستے اپنا رہے ہیں۔ معاشرہ برائیوں اور جرائم میں میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ آواز بلند کرنے والوں کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ کمال اندھیری نگری ہے۔ طاقت کی دھونس پر معصوم کمسن لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناکر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔

غیر مسلموں کا زبردستی مذہب بدلوایا جا رہا ہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر مشنری جائیدادوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں۔ وائے ایم سی کراچی کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور پر قبضہ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ فیصل آباد میں کرسچن کمیونٹی کی طرف سے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کھولا گیا تھا جہاں مسلم اور مسیحی غریب و یتیم بچوں کو فری تعلیم دی جا رہی تھی۔ واسا اور سکول کی انتظامیہ کی آپس کی رضامندی سے بچوں کو کھیل کا میدان فراہم کیا گیا تھامگر اب واسا نے اس کھیل کے میدان میں گندے پانی کا تالاب بنا دیا ہے۔

یہ ایک قومی خطرہ ہے کہ اس گندے پانی کے تالاب سے وہاں پڑھنے والے سینکڑوں بچوں کو بیماریا ں لاحق ہو سکتی ہیں۔ مگراس عمل کے خلاف احتجاج کرنے کے باوجود کوئی سننے والا نہیں۔ کئی سالوں سے مسیحی کمیونٹی کے خلاف خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مگر حکمران انجان بنے بیٹھے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان میں مذہنی اقلیتوں کے بہت ایشوزہیں اوردنیا میں جنگ و جدل اور ایذا رسانی کی وجہ سے لوگ دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔

دنیا کے اکثر ممالک میں مذہبی اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تاہم یورپ، امریکہ، کینڈا اوردیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف اگرکسی مذہب نے سب سے زیادہ ہجرت کی ہے تو وہ اسلام ہے۔ اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہے کہ جلد یہ تمام ممالک اسلام کا مضبوط گڑھ بن جائیں گے۔ برطانیہ میں چند سا ل پہلے Sharia law کا پْر زور مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اب توہین رسالت کو روکنے کے لئے کچھ دن پہلے ہی برطانیہ میں تحفظ ناموس رسالت ای پٹیشن پر دستخط کی مہم شروع کی گئی۔

جس پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ دستخط ہو چکے ہیں۔ اور اس پرایک لاکھ پانچ ہزار مسلمانوں نے دستخط کیے۔ اور ا ب جلد انگلینڈ اسمبلی میں اس پر بحث کا آغاز کر دیا جائے گا۔ ہم پاکستانی مسیحی بھی حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں۔ کہ وہ بھی مذہبی اقلیتوں اور بائبیل مقدس اور یسوع المسیح کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لئے قانون بنائے تا کہ جس طرح پاکستان میں آئے روز چرچز کو جلایا جاتا ہے، مقدس کتْب اور صلیبوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور مسیحی بستیوں کو لوگوں سمیت زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ایسے اندوہ ناک واقعات کو روکا جا سکے۔ ایسی علما کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ جو کھلے عام ٹی وی چینل پر یسوع المسیح کی حرمت کی گستاخی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتیں خصوصاً پاکستانی مسیحی جو پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں مقیم ہیں اور پاکستان میں رہنے والے مسیحیوں کے لئے فکرمندرہتے ہیں۔ انہیں بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتحاد کی فضا قائم کریں اوربڑے پن کے غلاف سے باہر نکلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).