ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے


مریم نواز کی پریس کانفرنس اور وڈیو لیک کا شور خوب جوبن پہ رہا۔ سیاست میں عدلیہ کی سیاسی کرداروں کی پکڑ دھکڑ کے باعث جو مرگ چھایا ہوا تھا۔ اسے کچھ توانائی سی مل گئی۔ بعض کہنے لگے یہ پانسہ پلٹ کارنامہ ہے مریم نواز کا اور بعض کہنے لگے یہ ن لیگ کی سیاسی قبر پر آخری مٹھی مٹی کی تھی۔

میرا تجزیہ اس معاملے میں ذرا مختلف ہے۔ دونوں باتوں کو ایک طرف رکھیں اور ذرا سوچیں۔ پاکستان کے 70 سال ایک طرف اور یہ چند ماہ ایک طرف۔ پلڑا اب بھی ان چند مہینوں کا بھاری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلی بار پاکستان کا بچہ بچہ ملکی معاملات سے باخبر رہنے لگا یے۔ ساری قوم حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کارروائیوں پہ نظر رکھنے لگی ہے۔ ہر جوان اپنی رائے کا اظہار بنا خوف و خطر کررہا ہے۔ سوشل میڈیا نے آزادی اظہار کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہر شہری میں سوچنے، بولنے اور لکھنے کی تحریک بھی پیدا کردی ہے۔

اس میڈیم کے استعمال کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں۔ یہ ایک طرف تو بہت کارآمد بات ہے کہ عام آدمی براہ راست حاکم وقت کو للکار سکتا ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے بہت سارے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرسکتا ہے۔ اس کے لئے اسے عملی طور پر گھر سے نکلنے اور بہت زیادہ سرمایہ خرچنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ پہلی بار اسے غور وفکر اور تدبر و حکمت کے ہتھیاروں کا استعمال کرنا پڑرہا ہے۔

برسوں پہلے ان نوجوانوں کے لئے علامہ اقبال نے دعا کی تھی
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
شاید دعا قبول ہونے کا وقت آیا ہے۔ طوفان تو اس قوم نے بیشمار دیکھے۔

ماضی قریب میں دہشتگردی کے طوفان نے اس قوم کو جو صدمے دیے وہ ابھی تھمے نہ تھے کہ پانامہ ہنگامہ برپا ہوگیا اور ایک کرپشن کے انکشافات کا طوفان ہر طرف قوم کی امیدوں اور خوابوں کو ادھر ادھر پٹختارہا۔ ابھی یہ دل بجھانے والا طوفان تھما نہ تھا کہ احتساب کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جو روز امیدوں کے چراغ کی لو بڑھاتا گھٹاتا رہتا ہے۔ تذبذب کا شکار قوم اپنے جذبات کا اظہار سوشل نیٹ ورکنگ پر کرنے آگئی اور مختلف آراء تک رسائی آسان ہوگئی۔

موجودہ صورتحال میں نظر آتا ہے کہ اس احتسابی شکنجے میں صرف سیاستدان نہیں بلکہ عدلیہ بھی پھنس جائے گی۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ ایک جمہوری ریاست میں مقدس صرف جمہور کی رائے ہو اور جمہور کی رائے میں تو احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے۔

اب اس وڈیو لیک کے بعد جج ارشد ملک کے ساتھ ساتھ نواز شریف خاندان ایک بار پھر مصیبت میں گرفتار ہوتا نظر آتا ہے۔ مریم نواز کو جو استثنی (جو رعایت حاصل تھی) ملا تھا۔ عنقریب وہ آزادی سلب ہوتی نظر آتی ہے۔ فلیگ شپ میں نواز شریف کی بریت اب چیلنج ہوسکتی ہے۔ فلیگ شپ اور العزیزیہ کیس اور نواز شریف کی اپیل کا جائزہ اب نئے شواہد کی روشنی میں لیا جائے گا۔ جس کردار کو مریم نواز نے شطرنج کی بساط پر بادشاہ کے حفاظتی حصار کے طور پر استعمال کیا ہے شاید وہی مہرہ آخرکار مات کا سبب بن جائے۔ کیونکہ بادشاہ اپنے بچاؤ کے لئے ایک ایک گھر چلتا ہے جبکہ ناصر بٹ وہ مہرہ ثابت ہوا جس نے بادشاہ کے آخری چند قدم بھی بلاک کردیے۔ اب بس مخالفین کی کارروائی کا انتظار ہے کہ کتنی چالوں میں کھیل ختم کیا جائے۔

نئے سرے سے تحقیقات ہوئیں تو اب جج ارشد ملک تو ہو نہیں سکتے جن کے متعلق سننے میں آرہا ہے کہ احتساب عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جج ارشد ملک کو سزا بھی سنائی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی اس متنازع وڈیو کو احتساب عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بھی بنا دیا گیا۔

ناصر بٹ جو سنگین جرائم کا مرتکب اور مفرور مجرم ہے۔ لگتا ہے جیسے عنقریب قانون کی گرفت میں ہوگا۔

مریم نواز کی پریس۔ کانفرنس میں شہباز شریف کے لاتعلق دکھائی دینے پر بہت تبصرے ہوئے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی ایک چال ہے۔ ذرا سوچئے ایسی وڈیو کا منظر عام پر لانے کے لئے کیا چچا بھتیجی نے آپس میں مشورہ نہ کیا ہوگا؟ کیا نواز شریف کے جیل میں ہوتے ہوئے ایسا بلنڈر ( اگر یہی سمجھا جارہا ہے تو) مارا جاسکتا ہے؟ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے جو رعایت ملتی ہے کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے اس راستے کو بھی بند کردیں؟ اور اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی معاونت تھی تو ان کی سیاست کا اب اختتام سمجھئے۔

اسی طرح دیکھئے اگر مریم نواز کی یہ اچھی چال مان لی جائے تو اس کا فائدہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ عمران خان نے اب تک بار بار کہا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل مجھے معلوم ہوا کہ عمران خان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ کوئی ڈیل کرکے نواز زرداری کو ملک سے باہر جانے دیا جائے۔ عمران خان کا انکار پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے شاید۔ شاید کسی طرف سے اس وڈیو لیک میں کوئی چھپا پیغام ہو کہ ’ہمیں بہت سے طریقے آتے ہیں اپنی بات پر عمل۔ کروانے کے‘ ۔ ویسے ہی جیسا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہوتا چلایا۔

البتہ اگر اس پہلو سے دیکھیں کہ یہ ن لیگ کی بجائے کسی اور رخ سے وڈیو لیک والا معاملہ ہوا تو مجھے پانامہ لیک کا فیصلہ اقامہ پہ یاد آیا۔ رانا ثناء کی ماڈل ٹاؤن کیس میں گرفتاری کی بجائے منشیات برآمد ہونے والے کیس کی یاد آئی۔ دو ایک جیسے۔ مقدمات میں سے ایک کی سزا اور دوسرے میں بریت یاد آئی۔ اس وڈیو کا مرکزی کردار ناصر بٹ ملک سے فرار ایک آزاد زندگی گزار رہا ہے بھلا وہ۔ کیونکر آئے گا اور بیان قلمبند کروائے گا؟ تو پتا چلا یہ بھی ایک الگ ہی ہانڈی ہے جس کے پکنے میں ابھی دیر ہے اور مجھ سے پوچھیں تو جس روز کچھ طے ہوجائے گا اس روز یا تو یہ لنگر سب مل بانٹ کر کھا لیں گے یا پھر بیچ چوراہے ہنڈیا کو پھوڑ دیا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ عمران خان کے اعصاب کا امتحان ہے۔

البتہ ایک بات تو میں وثوق سے کہہ سکتی ہو کہ مریم نواز کا اس پریس کانفرنس اور وڈیو سے جو فائدہ مطلوب تھا وہ ویسا نظر نہیں آتا۔ میری نگاہ میں یہ کہانی شریف خاندان کو زیادہ مہنگی پڑے گی۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ جج کو کسی بھی قسم کی آفر کرنا یا ڈرا دھمکاکر فائدہ حاصل کرنا یا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور کسی بھی طرح بلیک میل کرنا بھی ایک جرم ہے۔ جس کی قانون میں سزا متعین کی جاسکتی ہے۔
یوں اس کہانی کے اہم کردار جج ارشد ملک اور شریف خاندان کی موجودہ صورتحال کو ایک جملے میں لکھیں تو یوں ہوگا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).