قرآن فہمی اورجدید سائنسی نظریات


کیا قرآن فہمی میں جدید سائنسی نظریات فائدہ مند ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ چند ایک کے سوا زیادہ ترمسلم سکالرز جدید سائنس سے مدد لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ مشہور مبلغ اسلام ذاکر نائک توبہت جرات سے قرآنی آیات کی تشریح کرتے وقت جدید سائنسی نظریات استعمال کرتے ہیں۔ وہ چونکہ ابتداء سے ہی سائنس کے طالب علم رہے ہیں۔ اس کے بعد انہو ں نے قرآن وسنت کا بھی مطالعہ کیا۔ دیگر مذاہب پر بھی ان کو کافی درک حاصل ہے۔ قرآن، انجیل اور وید کے بارے حوالہ دیتے وقت لگتا ہے کہ وہ ان تمام کتب کے حافظ ہیں۔

وہ دور جدید کے سب سے اہم مناظر اسلام شمار ہوتے ہیں۔ عیسائیت کے ماہر ڈاکٹر ولیم کیمبل کے ساتھ ہونے والے مناظرہ میں بھی فتح انہی کو حاصل ہوئی تھی۔ وہ اپنے ہر لیکچر اور مناظرے میں جہاں نقلی دلائل دیتے ہیں۔ وہیں عقلی علوم (سائنس) سے بھی اپنے موقف کو ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ عام مسلمان بڑے خوش ہیں کہ دورجدید میں اسلام کی حقانیت عقلی اور نقلی دونوں منہاج سے واضح ہوتی جارہی ہے۔ لیکن سائنس پر بہت گہری نظر رکھنے والے کئی مسلم سکالرز قرآن کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے سائنسی نظریات سے سہارا لینے کو درست نہیں سمجھتے۔

ایسے سکالرز کا نقطہ نظرہم کسی دوسرے آرٹیکل میں بیان کریں گے۔ آج ہم ڈاکٹر ذاکر نائک کے خیالات کو مختصراً بیان کریں گے۔ جب سے اس سیارہ زمین پر نوع انسانی کا ظہور ہوا ہے۔ تب سے انسان نے ہمیشہ یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ نظام فطرت کیسے کام کرتا ہے۔ تخلیقات و مخلوقات کے تانے بانے میں اس کا اپنا مقام کیا ہے۔ سچائی کی اس تلاش میں جو صدیوں کی مدت اور متنوع تہذیبوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ منظم مذاہب نے انسانی طرز حیات کی تشکیل کی ہے۔

بعض مذاہب کی بنیاد تحریر شدہ عبارات و فرمودات پر رہی ہے۔ جن کے بارے میں ان کے پیرو کاروں کا دعویٰ ہے۔ کہ وہ الوہی ذرائع سے ملنے والی تعلیمات کا حاصل ہیں۔ جبکہ بعض دیگر مذاہب کا دارومدار خالصتاًانسانی تجربے پررہا ہے۔ قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جسے اسلام کی پیروی کرنے والے لوگ مکمل طورپر الوہی ذرائع سے نازل شدہ سمجھتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا قرآن بارے یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہ تمام بنی نوع انسان کے لئے رہتی دنیا تک ہدایت ہے۔

چونکہ قرآن کا پیغام ہر زمانے، ہرعہد اور ہر دور کے لوگوں کے لئے ہے لہذا اسے ہر دور کی مطابقت میں ہونا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ نشانیوں کی کتاب ہے۔ قرآن پاک میں 6۔ ہزار سے زیادہ آیات (نشانیاں ) ہیں جن میں سے ایک ہزار کے قریب فطرت (سائنسی علوم) سے بحث کرتی ہیں۔ یہ بھی اکثر لوگوں پر بات واضح ہے کہ قرآن میں آیات کو 2۔ حصوں محکمات اورمتشابہات میں تقسیم کیاگیا ہے۔

محکمات کا مفہوم بہت ہی واضح اور صاف ہوتا ہے۔ البتہ متشابہات پر غوروحوض کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس چیز کا احساس ہے کہ سائنس اپنا موقف بدلتی رہتی ہے۔ لہذا ثابت شدہ اور تسلیم شدہ عالمی حقائق کوہی قرآن فہمی کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے  آغاز کائنات یا تخلیق کائنات کا ذکر کرتے ہیں۔ آج کل سائنسدانوں میں اس نظریہ کو بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ اس نظریہ کی تفصیل سب سے پہلے سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب ”وقت کا سفر“ میں بیان کی۔

البتہ غوروحوض تو اس سے پہلے بھی جاری تھا۔ کائنات کیسے شروع ہوئی اور کیونکہ ختم ہوگی؟ کیا کائنات کی کوئی حد ہے۔ کیا وقت مڑ کر پچھلی سمت میں سفر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کتاب میں کئی موضوعات پر اظہار کیا گیا ہے۔ بگ بینگ نظریے کے مطابق ابتدا میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت میں تھی۔ پھرایک عظیم دھماکہ ہوا۔ جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ کائنات کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی۔ کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفرتھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے درجہ ذیل آیت میں بگ بینگ اور آغاز کائنات کو ثابت کیا ہے۔ ”کیا وہ لوگ جنہوں نے انکار کردیا ہے۔ غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا“ (سورۃ 21، آیت 30 )

ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس قرآنی آیت اور بگ بینگ میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400 سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی اپنے اندر ایسی غیرمعمولی سائنسی حقیقت لئے ہوئے ہو؟ یہ امکان صرف نازل شدہ وحی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات میں کہکشائیں بننے سے پہلے کائنات کاسارا مادہ ایک ابتدائی گیسی حالت میں تھا۔ کہکشاؤں سے پہلے کل مادہ گیسی حالت میں تھا۔

اسے قرآن نے دھواں کہا ہے۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ”وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو“ دونوں نے کہاہ م آ گئے فرماں برداروں کی طرح ”اس آیت کو بھی“ عظیم دھماکہ ”نظریہ کے حق میں سمجھا جاتا ہے۔ 1400 سال پہلے آغاز کائنات کا کسی کو کوئی علم نہ تھا۔ صرف قرآن مجید میں وحی کے ذریعے آیات میں اشارے کیے گئے اور آج کل جدید سائنس ان اشارات کو کھول کربیان کررہی ہے۔ چند سال پہلے سائنسدانوں نے ملکر فرانس اور سویڈن کی سرحد پر زیر زمین 30۔ کلومیٹر لمبی لیبارٹری تعمیر کی ہے۔ اسے Cern Labortary کہا جاتا ہے۔ اس پر 5 ارب پونڈ خرچ آئے ہیں۔ او رکائنات کب کیسے تخلیق ہوئی۔ یہاں مختلف تجربات جاری ہیں۔ پاکستان بھی اس لیبارٹری کا ممبر ہے۔ ہمارے سائنسدان بھی وہاں تجربات میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ ایٹم بھی تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ صدیوں سے یہ تصور سائنسدانوں میں چلا آرہا تھا کہ ایٹم ہی اس کائنات کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہے۔ اسے مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

اب عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ ایٹم کے اندر نیوٹران، پروٹان اور دیگر چھوٹے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں۔ ایٹم کے قابل تقسیم ہونے کا تصور بھی بیسویں صدی کی سائنسی پیش رفت میں شامل ہے۔ عربوں کے نزدیگ بھی ”ذرہ“ آخری حد تھی۔ اس سے آگے مزید تقسیم ممکن نہ تھی۔ لیکن قرآن پاک نے واضح طورپراس حد کو ماننے سے انکار کیا۔ ”منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے کہوقسم ہے میرے پروردگار کی وہ تم پر آکر رہے گی۔

اس سے زرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے۔ نہ زمین میں نہ ذرے سے بڑی اور نہ ذرے سے چھوٹی۔ یہ سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے ” (سورۃ 34، آیت 3 ) یہاں سے واضح ہورہا ہے کہ اللہ ہر چھپی ہوئی اور ظاہری شے کوجانتا ہے۔ چاہے وہ ذرے سے بڑی ہویا چھوٹی۔ اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ اشیاء ایٹم ذرے سے چھوٹی بھی ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں نے یہ حقیقت 20۔ ویں صدی عیسوی میں دریافت کی ہے۔ قرآن کا اشارہ 1400 سوسال پہلے کا ہے۔

درج کردہ آیات سے قرآن فہمی میں مدد مل رہی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک اور بشیرالدین جیسے سائنسدان بھی جدید سائنس کو قرآن فہمی کے لئے معاون سمجھتے ہیں۔ ایٹمی سائنسدان بشیر الدین محمود نے تو قرآن کی سائنسی تفسیر بھی لکھ ڈالی ہے۔ اس کا نام کتاب زندگی ہے۔ اگرچہ نامکمل ہے۔ زمین کی گو ل ساخت قدیم زمانے کے لوگ زمین کو چپٹا سمجھتے تھے۔ دور دراز کا سفر نہیں کرتے تھے کہ وہ کہیں کناروں سے نیچے نہ گرجائیں۔ 1597 ء میں سر فرانسس ڈریک نے دنیا کا پورا چکر لگایا۔

اور ثابت کیا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے۔ ”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں“ (سورۃ 31 آیت 29 ) یہ آیت جو 14 صدیاں پہلے نازل ہوئی زمین کو کروی (گول) ثابت کررہی ہے۔ جبکہ عام انسانوں کو 1597 ء میں آکر معلوم ہوا کہ زمین گول ہے۔ ایسے ہی ایک اور آیت بھی زمین کو گول ثابت کر رہی ہے۔ ”اس نے آسمانوں اورزمین کو برحق پیدا کیا۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے“ پھلوں میں نر اور مادہ: ”اس نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں“ (سورۃ 13 آیت 3 ) اعلیٰ درجے کے پودوں میں نسل خیزی کی آخری پیداوار ان کے پھل ہوتے ہیں۔

پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے۔ جس میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ جب کوئی نردانہ کسی پھول تک پہنچتا ہے۔ تبھی وہ پھول ”بارآور“ ہوتا ہے۔ تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں۔ اس امر کا پتہ دیتے ہیں۔ کہ پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے اب آکر اپنی تحقیقات سے ایسی باتوں کو ثابت کیاہے۔ لہذا ڈاکٹر ذاکر نائک کے کہنے کے مطابق جدید سائنسی نظریات جو عالمی سطح پر ثابت شدہ ہوں انہیں قرآنی آیات کی تشریح کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر صاحب کے خطبات کئی بڑی بڑی کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ولیم کیمبل سے ان کا مناظرہ بھی سائنسی نظریات سے بھرا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلے کسی اور سکالر نے اتنے وسیع پیمانے پرسائنس کو قرآن فہمی کے لئے استعمال نہیں کیا۔ مولانا مودودی جیسے سکالرز نے بھی کئی جگہ صرف مختصر اشارات کیے ہیں۔ وہ سائنسی نظریات کو حتمی اور قطعی نہیں سمجھتے تھے۔ کچھ دیگر سکالرز بھی سائنسی نظریات کو قطعی اور حتمی نہیں سمجھتے۔ سائنس کا سفر آگے کی طرف جاری رہتا ہے۔ یہ ارتقاء پزیر ہے۔ آج کے نظریات چند دہائیوں اور صدیوں بعد بدل جائیں گے۔ کیا بدلتے ہوئے ”علم“ کو قرآن کی تشریح کے لئے استعمال کیاجا سکتا ہے؟ یہ موضوع آئندہ قسط میں زیربحث آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).