اللہ کو پیاری ہے قربانی


\"muhammad-adil2\"

اپنے جاننے والے ایک صاحب کے منجھلے فرزند سرطان کی موذی مرض کا شکار ہیں۔ اس کے علاج کے لئے وہ صاحب اپنا سب کچھ وارنے پہ تل گئے۔ علاج پہ اٹھنے والے اخراجات کا پھیلاؤ چادر سے باہر سرکنے لگا اور بات بڑھتے بڑھتے گھر بکنے تک آگئی۔ اداسی کے عالم میں کئے گئے استفسار پر کہ گھر بیچ دو گے تو میاں کیا گلی میں دھکے کھاتے پھرو گے؟ وہ باپ مسکرایا اور بولا، \”یہ گھر تو کیا اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان بھی قربان کردوں گا\”۔

ہر نسل وراثت میں خزینے نہیں دیتی
اولاد بھی کیا چیز ہے جینے نہیں دیتی

پریشان حال گھرانوں کی، بیٹوں سے ذیادہ بہادر بیٹیاں اپنے اپنے خاندان کا بوجھ کندھوں پہ اٹھانے گھروں کی دہلیز پار کرتی ہیں، سر سے لے کر پاؤں تک طواف کرتی ایکس ریز سے تیز نظروں کا صبح سے شام تک شکار رہتی ہیں۔ گھریلو مسائل کی وجہ سے باہر نکلنے والی یہ خواتین کس کس قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار نہیں رہتیں؟ ماں باپ بہن بھایئوں کی محبت میں یہ اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا کر اپنی ذہنی آسودگی کو تو قربان کرنا پسند کر لیتی ہیں، لیکن انہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتیں۔ ایسی ہی بیٹیوں کے بارے میں شاید شاعر نے کہا کہ

بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آگئے، وہاں ہوتی ہیں

ملکی سرحدوں کی حفاظت پہ معمور فوجیوں سے لے کر شہروں کی گلیوں سڑکوں پہ رات بھر گشت کرنے والے پولیس کے سپاہی تک اپنی جان ہتھیلی پہ رکھتے ہیں، وہ جاگتے رہتے ہیں تو ہم چین سے سوتے ہیں۔ اکثر اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نبٹتے ہوئے یہ اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کر دیتے ہیں۔ انہی جوانوں، انہی شہدا کےلواحقین ان کے ماں باپ سے گفتگو کریں تو یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ، \”ایک بیٹا تو کیا دس بیٹے بھی قربان کرنے پڑیں تو لمحہ بھر بھی نہ دریغ کریں۔\”

رانجھے ہیروں کے لئے سینے میں چھرا گھونپ لیتے ہیں، کچے گھڑوں پہ سوہنیاں اٹھی ہوئی ندیاں لوٹ لیتی ہیں۔ لیلٰی کے جسم پہ برستے کوڑوں کے نشاں مجنوں کے جسم کو سجاتے جاتے ہیں۔ ازل سے عاشق و معشوق اک دوسرے کے لئے جاں دیتے رہے، یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت عاشق محبت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے، قربان ہوتے رہیں گے۔

عشق تو سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق پہ کربلا کا سایہ ہے

حسینؑ ابنِ علیؑ کی مقامِ کربلا پہ اللہ کے حضور دی گئی قربانی کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ بہتر (72) لوگ رہتی دنیا کے اربوں انسانوں کے لئے حق و انصاف کی راہ میں قربان ہوجانے کی ایسی داستاں رقم کر گئے جسے کون فراموش کر پائے گا۔

گئے زمانوں کی بات ہے کہ اللہ کے برگذیدہ نبی خلیل اللہ ابو الانبیا حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں بشارت ہوتی ہے کہ اپنے رب کی بارگاہ میں بیٹے کو قربان کردو۔ لگ بھگ نوے برس کی عمر میں ملنے والے اولاد کے بارے میں ایک پل بھی نہ سوچا اور اسے اپنے رب پہ وارنے روانہ ہو گئے۔ بیٹے نے پوچھا کہ یہ چھری اور رسی کیوں؟ تو اللہ کے پیمبر نے سچ سچ بتا دیا کہ، \”تجھے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ہوا ہے۔ بتا اب تو کیا کہتا ہے؟\” بیٹے نےمسکرا کر کہا، \”اے میرے محترم باپ، ہمیں پیدا کرنے والے کی یہ مرضی ہے تو میری مرضی کا کیا سوال۔ آپ بالکل نہ گھبرائیے، میں اللہ کے حضور قربان ہونے کو تیار ہوں۔\” پیدا کرنے والے کی عقیدت و محبت میں باپ بیٹا خود کو قربان کرنے پہ بخوشی رضامند تھے۔ وہ تو بارگاہِ الٰہی کو صرف محبت کی آزمائش مقصود تھی کہ عین چھری پھرتے سمے بیٹے کی جگہ مینڈھا آگیا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس بندہِ خدا نے تو خدا کے حضور اپنا لختِ جگر قربان ہی کردیا تھا، خدا نے وہ قربانی قبول فرمائی اور ابراہیمؑ کو اپنی دوستی کے مرتبہ پر سرفراز کیا۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ

اسی واقعے کی یاد میں مسلمان آج تک ذوالحج کے مہینے میں قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں۔ عیدالاضحٰی کے موقعے پر ادا کی جانے والی یہ سنتِ ابراہیمی، یہ قربانی ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کا حکم صاحبانِ استطاعت کے لئے ہے۔ صاحبِ استطاعت وہ ہے جس پہ زکوٰۃ فرض ہے۔ جس پہ زکوٰۃ فرض نہیں وہ قربانی نہ کرے۔ جس کے ذمہ قرض کی ادائیگی ہے وہ بھی قربانی نہ کرے۔ لیکن اِس زمانہِ پر فریب و پرآشوب میں کچھ سفید پوش خاندان صرف اپنی عزت بنانے اور بھرم قائم کرنے کے لئے قرض تک لے کر قربانی کے جانور خریدتے ہیں، نیتوں کا حال اللہ جانے، لیکن جب خدا خود قربانی کو استطاعت کے ساتھ نتھی کردیتا ہے تو اس حکمت کو سمجھنا چاہیئے۔ دین میں آسانی ہے اسے خود کے لئے مشکل بنانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ قربانی دراصل استطاعت رکھنے والوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ جب تمہاری کوئی پیاری چیز جب تمہارے رب کے نام پر قربان ہو رہی ہو تو اس کا افسوس نہ کرو، یہ قربانی یقینآ تمہارے حق میں بہتر ثابت ہوگی۔ لیکن اگر ہم اس فریضہ کو سٹیٹس کی علامت بنادیں گے تو اس کی اصل روح سے دور ہوتے جائیں گے۔ اس کی اصل روح یہ ہے کہ ربِ تعالیٰ کے حضور تحفہ یا نذرانہ پیش کر کے اس کی بندگی کا اظہار کیا جائے۔

باپ بیٹے کے لئے قربان، بیٹیاں اور بیٹے اپنے گھرانوں کے لئے واری، افواجِ مملکت، ملک کی محبت میں جانوں کا نذرانہ پیئش کرنے کو تیار۔ عاشق معشوق کے لئے اپنی جان سے بے پروا۔ نواسہِ رسول حرمتِ رسول پہ قربان۔ اللہ کا نبی اپنے عزیز از جاں بیٹے کی گردن پہ چھری رکھنے پہ راضی۔ یہ سب کیا ہے؟ وہ کیسا جذبہ ہے جو خود کو اوروں کے لئے مرنے مٹنے پہ آمادہ کرلیتا ہے۔ یہ جذبہِ قربانی انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ قربانی محبت کی روایت اور عقیدت کی معراج ہے۔ قربان ہونے والا اپنا تن من دھن تیاگنے چل پڑتا ہے، اپنا سب کچھ ارپن کر دیتا ہے۔ قربانی اؔس توکل کا بین ثبوت ہے کہ جس میں اس فانی دنیا کے حاصلات کو فریبِ عشرتِ دوراں سمجھا جاتا ہے۔ اللہ قربانی کرنے والوں کی نذر مقبول فرمائے اور جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے انہیں بجائے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کے یہ شعور عطا کرے کہ اپنوں سے محبت، لوگوں کی خدمت، راستے سے ہٹائے جانے والے ایک پتھر اور روتے بچے کو بہلا دینے کے سبب بھی وہ رب راضی ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments