جج ارشد ملک ہماری درخشاں عدالتی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں


جج ارشد ملک کے حوصلے اور جرات کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ان کا حلف نامہ پڑھ کر علم ہوا کہ بری طرح سے بلیک میل ہونے اور شریف خاندان کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچنے کے باوجود رشوت کی پیش کش کو نظرانداز کرتے ہوئے جس طرح انہوں نے میرٹ پر بے خوف و خطر انصاف کیا ہے وہ کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں لگتا۔ پاکستانی عدلیہ کی درخشاں تاریخ میں انہوں نے خود کو امر کر لیا ہے۔

دنیا چاہیے جو کہے لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ احتساب عدالت کے جج صاحب کا بیان حلفی سچ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2018 میں احتساب عدالت میں تعیناتی کے فوراً بعد جب نون لیگی ناصر جنجوعہ نے ان پر احسان دھرا کہ جی آپ کی تعیناتی نون لیگ نے کروائی ہے تو جج صاحب نے نہایت متانت سے شکوہ کیا کہ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیتے۔ مقدمے کے دوران انہیں دس کروڑ کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے اپنی غیر معمولی بہادری سے کام لیتے ہوئے اسے ٹھکرا دیا۔

لالچ کا جال ناکام ہونے پر ناصر بٹ نے جج صاحب کو جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی اور ساتھ کنائے میں یہ بتایا کہ وہ چار پانچ افراد کو قتل کرنے کی سزا سے نواز شریف کی وجہ سے بچا ہے لیکن جج صاحب نے موت سے نہ ڈرتے ہوئے پھر انکار کر دیا۔

اس کے بعد جج صاحب کو سولہ سترہ برس پرانی ایک تحریف شدہ ملتانی ویڈیو دکھائی گئی جس میں جج صاحب ایک نہایت نازک صورت حال سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔ بہرحال ملتان میں گرمی ہی اتنی زیادہ پڑتی ہے کہ کسی شخص پر یہ اعتراض کرنا غلط ہے کہ اس نے کپڑے کیوں اتارے۔ اب کسی بدطینت شخص نے ملتانی گرمی کے موسم کی اگر ریکارڈنگ کر لی تو یہ اس کا قصور ہے۔ یا لفظ تحریف شدہ پر غور کیا جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی کیمرہ ٹرک لڑایا گیا ہو۔

بہرحال جج صاحب خواہ لاکھ بہادر ہوں اور موت اور رشوت سے نہ ڈرتے ہوں لیکن عزت کی خاطر وہ بلیک میل ہونے لگے۔ ناصر بٹ کے کہنے پر وہ پہلے جاتی عمرہ جا کر نواز شریف سے ملے لیکن ادھر جا کر صاف صاف بتا دیا کہ انہوں نے فیصلہ میرٹ پر کر کے سزا دی ہے۔

پھر واپس آ کر جب ناصر بٹ نے کہا کہ اس نے وکلا کے ذریعے نواز شریف کے لئے اپیل تیار کی ہے اور جج صاحب اس کا ریویو کر کے اپنی رائے دیں تو جج صاحب بلیک میلنگ کی وجہ سے مان گئے۔ اس کے بعد جب مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں جج صاحب کی ویڈیو ریلیز کی تو انہیں پتہ چلا کہ تعاون کا عمل کرتے ہوئے ان کی ایک مرتبہ پھر خفیہ فلم بن گئی تھی۔

جج صاحب عمرہ کرنے گئے تو ناصر بٹ وہاں بھی نمودار ہو گیا۔ جج صاحب کو مسجد نبوی کے باہر سے زبردستی حسین نواز کے پاس لے گیا۔ جج صاحب بتاتے ہیں کہ وہ ڈرے ورے بالکل نہیں بلکہ انہوں نے کمال استقامت سے حسین نواز کی پیشکش ٹھکرا دی۔ جج صاحب پاکستان واپس آئے تو ناصر بٹ فون کر کر کے ان سے حسین نواز کی بات ماننے کا کہتے رہے۔ تنگ آ کر جج صاحب نے ناصر بٹ کے فون سننے چھوڑ دیے تو جج صاحب سے برسوں کی رفاقت رکھنے والے ناصر بٹ کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ جج صاحب کس قدر صاحب کردار ہیں۔ یہ احساس ہونے کے بعد مریم نواز کی کانفرنس ہو گئی۔

اب اگر کسی کمزور سے انسان پر ایسے الزامات لگتے تو وہ کسی کو اپنا منہ نہ دکھاتا، مگر جج صاحب نے تو اتوار کے دن احتساب عدالت لگا کر اپنی صفائی میں پریس ریلیز جاری کر دی تو صاف صاف بتا دیا کہ ویڈیو تو ان کی ہے لیکن سیاق و سباق کے بغیر پیش کی گئی ہے اس لئے وہ جھوٹی، جعلی اور مفروضی ہے۔

شکر ہے کہ بیان حلفی کے بعد سیاق و سباق سامنے آ گیا ہے۔ یعنی قوم کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ جج صاحب بلیک میل ہونے کی وجہ سے نواز شریف کے وکلا کی تیار کردہ اپیل کا ریویو کر رہے تھے اور ویڈیو واقعی بالکل جھوٹی، جعلی اور مفروضی ہے کیونکہ وہ ان کے علم میں لائے بغیر بنائی گئی تھی۔

بہرحال انسان تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایک طرف جج صاحب کا ایسا بلند کردار کہ پچاس کروڑ کی رشوت کو ٹھکرا دے، جان کے خطرے کو خاطر میں نہ لائے، میرٹ پر سمجھوتہ نہ کرے، اور دوسری طرف اپنی عزت کے ہاتھوں ایسا مجبور کہ نون لیگ والے کبھی زبردستی جاتی عمرہ لے جاتے ہیں، کبھی مدینے میں حسین نواز کے پاس حاضر کر دیتے ہیں اور کبھی ان سے زبردستی اپنے ہی فیصلے کے خلاف ریویو کروا لیتے ہیں۔

یوں تو پاکستان کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک نامور جج گزرا ہے۔ جسٹس منیر، مولوی مشتاق اور جسٹس قیوم جیسے لیجنڈ جج حضرات کا نام پاکستانی تاریخ میں امر ہو گیا ہے اور بہت سوں کے لئے مشعل راہ بن چکا ہے۔ لیکن جج ارشد ملک سے پہلے مثال بننے والوں میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات ہی شامل تھے۔ ارشد ملک سیشن جج کے لیول پر رہتے ہوئے ان عظیم ہستیوں کی صف میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے انہیں اپنے پیشروؤں پر سبقت حاصل ہے۔ ان کی ویڈیو بنی ہے اور بار بار بنی ہے۔ جب بھی کرپٹ عناصر کا ذکر ہو گا تو کہا جائے گا کہ ہاں ایک جج ارشد ملک گزرا ہے جس کے فیصلے عبرت کی مثال بنے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar