جج مسخرے کب بن جاتے ہیں؟


ویڈیو اسکینڈل پر غورکرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جس کے بعد وزارت قانون نے انہیں فوری طور سے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 تاہم وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس ہدایت پر دکھے اور بھاری دل کے ساتھ عمل کرنا پڑا ہے۔ اس دکھ کا اظہار کرنے کے لئے انہوں نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس کی اور جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی میں فراہم کردہ معلومات کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریف خاندان نے عدلیہ کو دباؤ میں لانے، ایک جج کو بلیک میل کرنے اور رشوت دینے کی کوشش کرنے جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ڈاکٹر فروغ نسیم جو وزیر قانون بننے سے پہلے ملک کے نامور وکیل تھے، اس پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی وکالت کا فریضہ ادا کرتے دکھائی دیے۔ لیکن ان کا مقدمہ جج کے بیان کی طرح ہی کمزور تھا۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کی ویڈیو منظر عام پر آنے اور ان کی طرف سے گزشتہ اتوار کو اس ویڈیو سے اخذکیے جانے والے نتائج کو مسترد کرنے کے لئے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے بعد نہ صرف جج ارشد ملک سے دو بار ملاقات کی بلکہ انہوں نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے بھی اس معاملہ پر مشاورت کی۔ اس کے علاوہ جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کو ایک بیان حلفی بھی دیا جو اب اس معاملہ کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔

 یہ قیاس کیاجاسکتا ہے کہ ویڈیو، پریس ریلیز اور بیان حلفی کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی اسلام ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس اس نتیجہ پر پہنچے ہوں گے کہ اس معاملہ میں کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی ان سے متفق ہوں گے۔ اسی لئے احتساب عدالت کے ایک جج کو اس کے فرائض سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اگر جسٹس عامر فاروق کو جج کی بے گناہی کا پورا یقین ہوتا یا بیان حلفی یا دوسری دستاویزات کے ذریعے ارشد ملک خود کو بے قصور اور مسلم لیگ (ن) کے پروپیگنڈے اور سیاست کا نشانہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے، تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اعلیٰ عدلیہ ان کی حفاظت کے لئے ان کی پشت پر کھڑی نہ ہوتی۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے اس معاملہ پر احتیاط سے غور کرنے کے بعد ہی جج ارشد ملک کو اس کی موجودہ حیثیت سے برطرف کرنے کا حکم دیاہوگا۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کے پاس اعلیٰ عدالت کے اس حکم کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے موجودہ حکومت میں احتساب کے نگران شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس برپا کی اور ارشد ملک کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر شریف خاندان کو متعدد جرائم کا مرتکب ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ارشد ملک کا بیان حلفی ایک ایسے شخص کا بیان ہے جس کی عدالتی چھان بین اور جانچ ہونا باقی ہے۔ اور جس کی ابتدائی پرکھ کے بعد ہی اسلام ہائی کورٹ جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوئی ہے۔

 اس حوالے سے سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ جج ارشد ملک کے بیان حلفی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت سامنے آنے کے فوری بعد کس نے میڈیا کو فراہم کرنا ضروری سمجھا۔ کیا اس معاملہ کی ساری دستاویزات کسی باقاعدہ قانونی کارروائی کے تحت عام کی گئی ہیں یا بعض عناصر نے کسی اختیار اور جواز کے بغیر سیاسی فضا کو مکدر کرنے اور ایک مشکل اور پیچیدہ معاملہ میں نواز شریف پر دباؤبنائے رکھنے کے لئے اس بیان حلفی کے مکمل متن کو جاری کرنا ضروری سمجھا۔

 وزیر قانون فروغ نسیم کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ اگر وزارت قانون نے یہ فیصلہ کیا ہے تو ایک ایسی دستاویز جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے اور جس معاملہ پر ابھی حتمی عدالتی کارروائی بھی ہونی ہے اور فیصلہ آنا بھی باقی ہے، کو اس وقت جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ بیان حلفی کو جاری کرنے کے بارے میں وزارت قانون کے کردار کے بارے میں یہ شبہ اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیر قانون کے علاوہ شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کے دوران بیان حلفی میں شریف خاندان پر عائدکیے گئے الزامات کو بنیاد بنا کر نواز شریف کے خلاف مقدمہ درست ثابت کرنے اور مریم نواز کے ہتھکنڈوں کو عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

 وزیر قانون کا دعویٰ تھا کہ کسی کو عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جج کی بے قاعدگی یا بے اعتدالی کی وجہ سے سامنے آنے والے ایک اسکینڈل کے بعد وزیر قانون کو باقاعدہ یہ اعلان کرنا پڑا کہ عدلیہ کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی؟ کیا اعلیٰ عدلیہ نے وزارت قانون سے یہ درخواست کی ہے کہ اسے مختلف مقدمات میں مطلوب لوگوں کی طرف سے دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے حکومت ان کی مدد کے لئے اقدام کرے؟

 مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali