مریم نواز عمران خان کی سیاست کو گہنا کر رکھ دے گی


آخر کار مریم نواز نے اپنے بیمار والد کے سائے سے نکل کر اپنے بل بوتے پر سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک طرف شہباز شریف اور دوسری طرف شاہد خاقان عباسی کو بٹھا کر خود مرکزی سیٹ پر بیٹھ کر انہوں نے نیب کے احتساب عدالت جج کی نواز شریف کے ایون فیلڈ فیصلے میں مشکوک کردار کو سامنے لا کر پاکستان بھر کی توجہ سمیٹ لی ہے۔ یہ ہر لحاظ سے قوت سے بھرپور پرفارمنس کا مظاہرہ تھا جس نے مشکلات میں گھری ن لیگ کی بقا کے سفر کے لیے سٹیج سیٹ کر دیا۔ مسلم لیگ ن کافی عرصہ سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے نشانہ پر تھی۔

پچھلے ہفتے مریم نواز نے منڈی بہاو الدین میں ایک بہت بڑا جلسہ کیا جس میں ان کی پارٹی کے دوسرے بڑے رہنما موجود نہیں تھے۔ اپنی اس مہم کے دوران ان کے ٹویٹ بریگیڈ نے بھی وزیر اعظم کو سلیکٹڈ اور جعلی وزیر اعظم کے خطابات سے نوازا۔ جواب میں پی ٹی آئی گورنمنٹ نے میڈیا پر مریم نواز کو دکھانے پر پابندی لگا دی۔ 3 ٹی وی چینلز کو مریم نواز کی ریلی دکھانے پر آف ائیر کر دیا گیا۔ ایک نجی چینل کو مریم نواز کا ایک خصوصی انٹرویو کرنے سے روک دیا گیا۔ اب حکومت نے نیب کو حکم دیا ہے کہ وہ مریم کے خلاف ایک اور کیس تیار کرے۔ لیکن جھکنے کی بجائے مریم نواز نے خبردار کیا کہ اگر انہیں ایک بار پھر عدالتوں میں الجھایا گیا تو وہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے اداروں کے گھناونے کرداروں کو ایکسپوز کریں گی جنہوں نے ارشد ملک کو مجبور کر کے ان کے والد کو بے قصور ہونے کے باوجود سزا سنائی۔

نیب کیس میں ان پر ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ عدالت میں جمع کرنے کو الزام ہے۔ اس طرح کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ قید ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں پہلے سے ہی سات سال قید کی سزا اسی کیس میں سنائی جا چکی ہے۔ کیوں کہ جج نے اس ٹرسٹ ڈیڈ کو اصل ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ کیس ایک دوسری اہم وجہ سے بھی کھوکھلا معلوم ہوتا ہے۔ نیب آرڈیننس میں لکھا ہے کہ کوئی بھی نیب جج فیصلے کے تیس دن کے بعد اس طرح کی کوئی بھی درخواست نہیں لے سکتا اور اس کیس کے فیصلے کو ایک سال گزر چکا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ چیئرمین نیب اس اقدام کے ذریعے مریم نواز کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت نے پہلے سے ہی نواز شریف سے ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے اور صرف فیملی ممبران کو ان سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ گھر سے کھانا منگوانے کی سہولت پر بھی حکومت پابندی لگا چکی ہے۔ اگرچہ نواز شریف نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جیل انتظامیہ کھانے میں زہر ملا کر ان کی صحت کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔ مریم نواز نے دھمکی دی ہے کہ اگر کھانا منگوانے کی سہولت واپس نہ دی گئی تو وہ کوٹ لکھپت کے باہر بھوک ہڑتال کریں گی۔ اب حکومت نے ایک فیملی ڈاکٹر کو ہفتہ میں ایک بار نواز شریف سے ملنے کی اجازت دے دی ہے۔

مریم نواز نے ارشد ملک کی ایک اور ویڈیو ریلیز کر کے صورتحال کو مزید گرما دیا ہے۔ نواز شریف ابھی خاموش ہیں۔ لیکن مریم کی جرات مندانہ قیادت کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی نے بھی کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ کوارٹرز کے موڈ کو بھانپتے ہوے کہا ہے کہ فوجی قیادت کو توسیع دینا ماضی میں بھی ملکی مفاد کے مطابق نہیں رہا اور انہیں امید ہے کہ نومبر میں قمر جاوید باجوہ ایکسٹینشن لینے کی بجائے بر وقت ریٹائر ہونے کو ترجیح دیں گے۔ اس کےساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ عمران حکومت نومبر سے پہلے گر جائےگی۔

مریم کی بہادری اور حوصلہ متعدی مرض جیسا ہے۔ اب مین سٹریم میڈیا میں بھی کچھ لوگ پیمرا کے ذریعے حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ ججز پر دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی بلیک میلنگ کے سامنے بند باندھنے کی ہمت دکھائیں۔ اگرچہ حکومت نے بہت سے وکلا تنظیموں کو رشوت دے کر جسٹس فائز عیسی کے خلاف حکومت کے ریفرنس کے خلاف احتجاج سے روک دیا ہے لیکن پھر بھی بہت سے وکلا اب بھی اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ جسٹس فائز عیسی نے اپنے فیصلے میں ریاستی اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

دوسری طرف مشتعل کاروباری حلقوں نے یا تو دکانیں ہی بند کر لی ہیں یا آئی ایم ایف کی طرف سے تباہ کن ٹیکسز کے خلاف ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سہمے ہوئے نظر آتے ہیں جس کی وجہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں 40 روپے کا اضافہ ہے۔

پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ قوت دو وجوہات کی وجہ سے دھاندلی زدہ الیکشن سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنی ٹیم کو کیسے سلیکٹ اور مینیج کریں۔ انہوں نے پورا ایک سال وزارتیں بدلتے بدلتے اور اپنی پالیسی سے یو ٹرن لے لے کر ضائع کر دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے آئی ایم ایف کو مجبور کیا کہ ملکی معاشی مسائل میں پی ٹی آئی حکومت کو ن لیگ کی طرح برابر کا ذمہ دار قرار دے۔ ان کا فوکس گورننس پر اور عوام سے کیے وعدے نبھانے پر کم اور ن لیگ اور پی پی کو دبانے پر زیادہ رہا ہے۔

اس سے بھی بُری بات یہ کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے ان کی اتحادی مین سٹریم پارٹیاں مخالفین سے ہاتھ ملا کر انہیں حکومت سے ہٹانے پر رضامند دکھائی دیتی ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال نے بہت ریاست اور معاشرے کے بہت سے فالٹ لائنز کو ایکسپوز کر دیا ہے اور نئے پاکستان کی امیدوں کو ایک ڈراونا خواب اور دہشت کی علامت بنا دیا ہے۔

لیڈرز ظلم، جبر اور عدم مساوات کے خلاف مزاحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں مریم نواز پاکستان کے سیاسی افق پر ایک ابھرتا ہوا ستارہ ہیں جو عمران خان کی سیاست کو گہنا دے گا۔

(بشکریہ: فرائی ڈے ٹائمز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).