گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری!


ملکِ عزیز میں زبان بندی، ٹیکس گردی اور ہڑتالوں کا موسم جاری ہے۔ مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات اور دستاویزات کی شرائط کے خلاف سنیچر کو پاکستان کی تاجر تنظیموں کی کال پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی. سنیچر کو ہونے والی ہڑتال کامیاب تھی۔ یہ ہڑتال اپوزیشن کی کال پر نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔؟

مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں ہی ابو بچاؤ مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم سکون سے ٹوئٹر پر سسیلیئن مافیا کو کوس رہے ہیں اور جواب میں مریم نواز انھیں میٹھے میٹھے طعنے دے رہی ہیں۔

جولائی کی گرمی میں اپنی دکانیں بند کیے چوکوں پر بیٹھے تاجروں کی کسی کو پروا نہیں۔ بابو نگری میں آئی ایم ایف کی جادو کی چھڑی سے پیسے بنانے کی ترکیب ایجاد ہوئی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو جادو کا ڈنڈا تھما کر کہا گیا کہ جائیے اور ان ٹیکس چوروں کی ہڈیوں سے ٹیکس نکال لائیے۔ شبر زیدی نظام کے پرزے ہیں، جب نظام کو ہانکنے والے وہ لوگ ہوں جنھیں کبھی گدھے ہانکنے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو تو جو صورت حال آج سامنے ہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔

ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو نہایت نازیبا زبان میں دھمکی آمیز نوٹس موصول ہوئے جس میں مقررہ وقت پر ٹیکس ادا نہ کرنے پر گرفتاری کی دھمکی بھی دی گئی۔ دوسری کارروائی یہ کی گئی کہ صنعتوں، تاجروں، زراعت وغیرہ پر نہ صرف ٹیکس بڑھائے گئے بلکہ کچھ ایسے قدامات بھی کیے گئے جو ناقابلِ قبول ہیں۔

تاجروں اور حکومت کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ ہونے ہی تھے۔ بابو نگری میں جو دو جمع دو چار ہوتے ہیں وہ عام دنیا میں چار نہیں ہوتے۔ منشی گیری کے علاوہ اگر یہ لوگ طبیعات بھی پڑھ لیتے تو انھیں علم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ان پٹ کا آؤٹ پٹ کبھی ایک نہیں ہوتا۔ ایک سے کم ہی ہوتا ہے۔

سال بھر پہلے جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی تو اندازہ نہ تھا کہ سال کے اندر اندر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ کئی صنعتوں کو تالا لگ چکا ہے، سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ رہا ہے ڈالر کی عمودی پرواز سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ ہنڈا اور ٹویوٹا نے اپنے یونٹ قریبا بند کر دیے ہیں۔ گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری ہے۔ آزادیِ اظہار پر پابندی ہے۔ معیشت منہ کے بل گری پڑی ہے اور وزیر اعظم چلا چلا کر کہہ رہے ہیں یہ سسیلیئن مافیا ہے، یہ سسیلیئن مافیا ہے۔

اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا انجام یہ ہوا کہ آج کسی بھی سیاسی لیڈر کی غیر موجودگی کے باوجود نہایت منظم ہڑتال ہوئی۔ جو اکا دکا دکانیں کھلی بھی تھیں ان کے شٹر بھی علامتی طور پر نصف بند تھے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے وزیراعظم کو نہ کبھی کوئی کاروبار کرنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی نوکری جیسی خفت اٹھانا پڑی۔ اس بات کا اظہار وہ اکثر اپنے محبوب ترین انداز میں کرتے ہیں جسے حاسد تکبر کہتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے یہ سب کرنے کی، میرے پاس تو سب کچھ ہے۔

ہڑتال

بالکل بجا فرماتے ہیں، ایچی سن کالج کے کالونیل ماحول میں انھوں نے کہاں ان بچوں کو دیکھا ہو گا جو سکول میں خر دماغ ماسٹر سے پٹ کر گھر آنے کے بعد، تندور سے گرم گرم روٹی لے کے کھاتے ہیں۔ تو بڑی عیاشی یہ ہی ہوتی ہے کہ دائی دوسرے پیڑے سے ذرا سا آٹا توڑ کے روٹی بھاری کر دے ایسی روٹی کو ’بوٹی والی روٹی‘ کہا جاتا ہے۔

یقیناً خان صاحب کو میلے کچیلے، بھنکتے غریب لوگوں کی اس واحد عیاشی کا علم نہیں۔ یہ وہی روٹی ہے، جس کے نام پر پیپلز پارٹی نے سالوں پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا۔ یہ ہی سستی روٹی تھی جس کی آڑ میں خادم اعلیٰ اتنے سال حکومت کر گئے۔ شاید تاجر رام ہو جائیں گے، شاید صنعت کار مان جائیں گے، ممکن ہے ہائی کورٹ زرعی ٹیکس پر سٹے واپس لے لے لیکن جب لوگوں کو کھانے کو روٹی نہیں ملے گی، جب آٹھ بچوں کا باپ جو 500 روپے یومیہ کماتا ہے، 20 روٹیاں 300 کی خرید کر گھر لائے گا تو اس کی آہ یقیناً آپ کو لے ڈوبے گی۔

بہت ممکن ہے اس سوال کے جواب میں آپ کل ٹویٹ کریں کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ عرض فقط یہ ہے کہ یہ ڈائیلاگ، تاریخ میں ایک کردار پہلے ہی ادا کر چکا ہے۔ امریکہ کے دورے پر جاتے ہوئے ذرا اس کا انجام پڑھ لیجیے گا اور ہاں، فرات کے کنارے کتا بھوکا نہیں ہے خان صاحب، لیکن 15 روپے کی روٹی بہت مہنگی ہے۔ کتوں سے پہلے انسانوں پہ ترس کھا لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).