بے خوف صحافی کو غصہ کیوں آتا ہے؟


میرے خاندان کے بڑے بزرگ جانتے ہیں کہ اپنے بچپن میں میں صحافی بننے کے خواب دیکھاکرتا تھا۔ اس دور میں جب کہ صحافت کے شعبہ میں نہ تو پیسہ تھا اورنہ فلمی ستاروں کا سا گلیمر، میری اخبار نویس بننے کی خواہش لوگوں کے لئے ایک عجب خیال تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ میں فوج میں چلا آیا۔ کم و بیش چار اطمینان بخش عشروں کے بعدبالآخراپنے ’بوٹ لٹکائے‘ ہیں تو پتا چلا کہ میری پہلی محبت یعنی صحافت سے وابستہ افراد کی اکثریت، جہاں اب بھی سفید پو شی میں زندگی بسر کرتی ہے تو وہیں اس بحر میں اب چند جزیرے ایسے بھی ابھر آئے ہیں کہ جہاں کے بسنے والے غیر معمولی طور پرطاقتور اور خوشحال ہیں۔

ماہانہ لاکھوں کی تنخواہیں، ان گنت مراعات کے ساتھ جن کے بچے دبئی کے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس جزیرے کے باسیوں کی بود و باش، معاشی معاملات اور معاشرتی اثرورسوخ، ہم آپ جیسے عامیوں پر خوف طاری کر دینے کو کافی ہیں۔ ان جزیروں کے نمودار ہونے میں جہاں بہت سے دیگر عوامل کارفرما ہیں، ان کی غیر معمولی شہرت اورخوشحالی کے پیچھے الیکٹرانک میڈیا کے ظہور کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

نئی صدی کے پھوٹتے ہی جب ابتدائی طور پر دو پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے پاکستان میں اپنی نشریات کا آغاز کیا تو میں قبائلی علاقوں میں اپنی یونٹ کی کمان سنبھالنے کے لئے پہنچا تھا۔ انہی دنوں ان میں سے ایک چینل کی نشریات دیکھیں تو خوشگوار حیرت اور طمانیت کا احساس ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ کار گل آپریشن کے فوراً بعد جب جنرل مشرف فوجی افسروں کے ذہنوں میں پائی جانے والی الجھنوں کے مدّنظر مختلف گیریژنز کے دورے کر رہے تھے تو ہمارے پاس بھی تشریف لائے تھے۔

ان کے خطاب کے بعد سوال وجواب کے سیشن میں افسروں نے جنگ کے دوران بھارتی میڈیا بالخصوص پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے کردار اور اس کے مقابل پی ٹی وی کی کسمپرسی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان میں بھی پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کے قیام کی تجویز دی۔ جنرل مشرف نے جس کی تائید کی اور اقتدار میں آتے ہی عمل درآمد بھی کر کے دکھا دیا۔

میں نے یونٹ کی کمان اس ماحول میں سنبھالی کہ افغانستان پر امریکی بمباری کے بعد ہر رنگ و نسل سے وابستہ جنگجو افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں پھیل چکے تھے۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پراب ایک بے چہرہ جنگ کا سامنا تھا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکہ کو ایک مسلمان ملک پر حملہ آور طاغوتی طاقت کے طور دیکھتی جبکہ اس سے لڑنے والوں سے ہمدردی کے جذبات رکھتی تھی۔ چنانچہ پاک فوج کی اس جنگ میں شمولیت کو بھی ان کی دلی تائید حاصل نہ تھی۔

بے یقینی کی اس فضا کو جنرل مشرف سے بوجہ عناد رکھنے والے عناصرکے علاوہ مذہبی سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں گھسے ان کے ہمدرد مزید گدلا کر رہے تھے۔ تیزی سے پھیلتے ہوئے نوزائیدہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی سرایت کر جانے والے ان کے ہمدردوں نے دہشت گردی کے خلاف اس ہولناک جنگ اوراس میں جانوں کے نذرانے دیتی فوج کے خلاف مذہب کے نام پر ایک موثر بیانیہ ترتیب دیا اور اسے خوب پھیلایا۔

ادھر سنگلاخ پہاڑوں اور بیابانوں میں پاک فوج کے افسر اور جوان مٹی کا قرض اتار رہے ہوتے تو دوسری طرف مخصوص ٹاک شوز میں سفاک دہشت گردوں کے انٹرویو زبراہِ راست نشر ہو رہے ہوتے جو سٹوڈیوز میں بیٹھے میزبان وتجزیہ کار توجہ اور احترام سے سنتے۔ شہری آبادیوں میں کسی بھی دہشت گردی کے بعد ٹی وی سکرینیں ہولناک مناظر سے بھر جاتیں۔ مخصوص ٹاک شوز کے جانے پہچانے میزبان جائے حادثہ پر پہنچتے اور ہیجان انگیز تبصروں کے ذریعے اپنی ہی خفیہ ایجنسیوں کو سانحے کے لئے براہِ راست ذمہ دار ٹھہراتے۔

سرِشام دہشت گرد خود واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتے تو ان کی مذمت کی بجائے، رات گئے ہمیں سمجھایا جاتا کہ یہ سب پرائی جنگ لڑنے کا کیا دھرا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا جس کی کمی ہم نے کارگل کی جنگ میں بری طرح محسوس کی تھی، اس کا بڑا حصہ اس جنگ میں دہشت گردوں کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کے ہاتھوں ہماری ہی پیٹھ پر تازیانے برسانے کا مؤثر ذریعہ بن چکا تھا۔ وکلاء کی تحریک اور لال مسجد آپریشن کے بعد جنرل مشرف غیر مقبول ہوچکے تھے، جبکہ پاک فوج بھی بوجہ اس درجہ کی عوامی تائید سے محروم تھی جو حالتِ جنگ میں کسی بھی فوج کو درکار ہوتی ہے۔

سٹوڈیوز میں بیٹھا بے خوف اینکر پرسن کیمرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ’طاقتوروں‘ (دہشتگرد نہیں) کو للکارتا تو مرعوب پاکستانی دم بخود ہو کر سنتے۔ اس جنگ اور اس جنگ کی آڑ میں اپنی ہی فوج کے خلاف بولنے والوں نے خوب نام کمایا۔ اندریں حالات کوئی تجزیہ کار جنگ کے اصل اسباب کی بات کرتا تو اسے لینے کے دینے پڑ جاتے۔

جنرل مشرف کے استعفے اور سوات میں طالبان کے مظالم کا پردہ چاک ہونے کے بعد حالات تبدیل ہوئے تو قوم اور میڈیا بھی اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔ میڈیا کی بے خوف مدد کے بغیر آپریشن راہِ راست اور ضربِ عضب کی کامیابی ہرگز ممکن نہ تھی۔ تاہم ضرورت اس امر کی تھی کہ تبدیل شدہ صورت حال میں نئی حکومت بھی ایک سفاک دشمن سے برسرپیکار اپنی افواج کو غیر ضروری معاملات میں الجھانے کی بجائے کامل یکسوئی کے ساتھ اس کی پشت پر کھڑی ہوتی۔

اس کے برعکس اقتدار سنبھالتے ہی جنرل مشرف کے گڑے مردے کو نکال کر تضحیک آمیزتقریروں اور نعروں کے شور میں جرنیلوں سے حساب چکتا کرنے کی ٹھان لی گئی۔ میڈیا پر وہی پرانے مخصوص چہرے جو ’پرائی جنگ‘ لڑنے والی فوج کی پیٹھ پر تازیانے برساتے تھے اب جنرل مشرف کو لٹکانے، سول بالا دستی، اور جبری گم شدہ افراد کی بازیابی جیسے مطالبات سے لبریز رزمیہ ترانے گا رہے تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس نے اپنے صحافی پر حملے کے بعد وہ طرزِ عمل اختیار کیا کہ اکتا کر اس گروپ کے اخبار سے میں نے اپنا بتیس سالہ پرانے قاری کا رشتہ توڑ دیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس اخبار میں آج کل کیا لکھا جاتا ہے لیکن اب بھی اس میڈیا ہاؤس سے وابستہ اکثر افراد کو ٹوٹیر پر باہم بروئے کاردیکھتا ہوں تو صورتِ حال کے بارے میں کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک طاقتور اور نڈر صحافی آج کل پھر سخت غصے میں نظر آتے ہیں۔ ان کی حالیہ پے در پے پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں نظر آنے والی ان کی کیفیت کی اصل حقیقت سے تو میں آگاہ نہیں کہ میں کوئی باخبر صحافی نہیں ہوں۔ تاہم میں ان کی خدمت میں محض ذاتی تجربات کی بنا پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حالتِ طیش بالعموم انسان کی طاقت نہیں بلکہ اس کے اندر چھپے احساسِ عدم تحفظ کا حیوانی ردِعمل ہوتی ہے۔ انسان کے بہادر ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ’طاقتور قوتوں‘ کو چیخ چیخ کر بتائے کہ اب ہم تم سے ڈرتے نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).