تھانیدار تمن خان، عمران خان اور ٹیکس وصولی


کحھ عرصہ قبل لاہور کے علاقے گوالمنڈی میں تمن خان ایک نیا ایس ایچ او تعینات ہوا تو علاقے کے بدمعاش اور بھتہ گیروں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ سب سے بدنام بھتہ گیر کو اٹھایا اور تھانے لا کر خوب لترول کی۔ اگلی صبح گوالمنڈی چوک میں جن دکانداروں سے وہ جگا ٹیکس لیتا تھا ان کے سامنے مرغا بنا دیا اور چابک لگا کر کہا کہ بولو میں کتا ہوں۔ سب لوگ حیران تھے کہ کل تک یہ آدمی اہل علاقہ کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بنا ہوا تھا آج دیکھو اس کا کیا حال ہوا ہے۔

تھانے دارچاہتا تھا کہ اس بھتہ گیر کو دوسرے بدمعاشوں کے لیے ایک عبرتناک مثال بنا دے۔ اس کی لوگوں کے سامنے اتنا بے عزت اور ذلیل ہو کہ وہ شرم سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ اور پھر وہ آئیندہ کے لیے توبہ کرلے کہ اس نے جگا ٹیکس نہیں لینا اور نہ ہی وہ کسی کو تنگ کرنا۔ پھر لوگ بھی ایس ایچ او کی تعریفیں کریں۔ یاد رکھیں کہ ایک ایسا ایمانداراور نڈر پولیس افسر اس علاقے میں آیا جس کہ بعد وہاں جرائم کا خاتمہ ہوگیا

مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگلے دن حوالات سے باہر نکلتے ہی وہ بھتہ گیر اسی گوالمنڈی چوک میں پہنچا اور اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ سامنے والی دکان والے کو بولو کہ جگا ٹیکس دے ورنہ اپنی خیر منالے۔ سب لوگ حیران تھے کہ اس بدمعاش بھتہ گیر پر کل کی مار اور بے عزتی کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا۔

پولیس افسر کو شاید نہیں معلوم تھا کہ اس بھتہ گیر کو سب سے پہلے گھر والوں نے سمجھایا ہو گا کہ بیٹا ایسے کام نہ کرو۔ پھر محلے داروں نے نصیحت کی ہو گی کہ شرم کرو لوگوں کو تنگ نہ کرو۔ علاقے کے نمازیوں اور امام مسجد نے تلقین کی ہو گی اچھے کام کرو۔ کچھ لوگوں نے اس کی بے عزتی بھی کی ہوگی۔ کسی نے اس کے گھروالوں کو شکایت کی ہوگی کہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں کہ بدمعاشی چھوڑ کر نیکی کے کام کرے۔ اگر اس میں ذرہ بھر بھی شرم و حیاء ہوتی تو وہ ایسے کام کبھبی نہ کرتا۔

ادھرعمران خان آئے روز کہتے ہیں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ کبھی دھمکیاں تو کبھی منتیں۔ الیکشن سے پہلے کنٹینر پر کھڑے ہو کر وہ کہتے تھے کہ اگر اقتدار مل گیا تو بیورو کریسی اور پولیس کو نتھ ڈال دوں گا۔ بیروں ملک چھپائے گئے اربوں ڈالر واپس لاوّں گا جس سے ملک سارے قرضے واپس کردوں گا۔ ایسا نظام لاؤں گا کے لوگ باہر سے لوگ یہاں نوکریاں لینے آئیں گے۔ وہ کہتا تھا کہ جب ایک ایماندار لیڈر منصب سنبھالے گا تو ٹیکس چور خود قطاروں میں لگ کر ٹیکس دینا شروع کردیں گے۔

اربوں ڈالر واپس آئے اور نہ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کی گئیں مخلصانہ اور دردمندانہ اپیلیں کام آئیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا بھی بے سود نکلا۔ الٹا ہوا یہ کہ جو ڈالر ملک میں موجود تھا وہ بھی واپسی کی اڑان بھرنے لگا۔ ریونیو میں اضافے کی بجائے اس کے بڑھنے کی رفتار کم ہونا شروع ہو گئی۔ کالے دھن کو سفید کرنے کی ایمنیسٹی سکیم تمام دھمکیوں اور اپیلیوں کے باوجود پچھلی حکومت کی ایمنیسٹی سکیم سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

سابق چیف جسٹس کی رکاوٹوں اورعمران خان کی اپنی حکومت آتے ہی سکیم ختم کرنے کی دھمکیوں کے باوجود پچھلی حکومت کی ایمنیسٹی سکیم سے 124 ارب کے ٹیکس حاصل ہو گئے مگر اب کیا ہو گیا۔ اس ’ایماندار‘ دور میں تو کئی گنا زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوناچاہیے تھا۔ تاجر اور کاروباری حضرات اس حکومت کی بات کیوں نہیں سن رہے۔ تمام کوششوں کے باوجود ملک گییر ہڑتال کردی گئی۔ کاروباری حضرات کیوں بضد ہیں کہ کر لو جو کرنا۔

کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، بجلی اور دیگر محکموں کو ٹھیک کیے بغیر حکومت کاروباری افراد اور تاجروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ ایک شریف اور ایماندار آدمی کے پاکستان جیسے ملک میں کاروبار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ کرپٹ سرکاری افسران اور اہلکاروں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایک امریکہ پلٹ نوجوان نے ایک غریب اور متوسط طبقے کے رہائشی علاقے میں شادی ہال کا کاروبار شروع کا سوچا تو سرکاری محکموں کے رویے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ وہ کس طرح سے کاروبار کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ نقشے کی منظوری سے لے کر بجلی کے حصول تک ہر سرکاری افسر اور اہلکار کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ بجلی کا ٹرانسفارمر لگوانے کے لیے 4 لاکھ روپے کی رشوت دینا پڑی۔ جب کاروبار چلنے لگا تو ہر محکمے کے اہلکار آئے روز کوئی نہ کوئی تقاضا کرنے لگے۔

پھر ایک دن عدالت عظمی کو خیال آیا کہ لاہور میں جن شادی ہالوں نے پارکنگ قائم نہیں کی انہیں بند کردیا جائے۔ اس نوجوان کو سخت دھچکا لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک غریب اور متوسط طبقے کے علاقے میں اگر وہ پارکنگ کے لیے جگہ خریدے گا تو اسے پھر اپنی فیس بھی بڑھانا پڑے گی جو وہاں کے لوگ شاید برداشت نہ کر سکیں۔ چونکہ عدالتی احکامات کی تعمیل لازم تھی توایل ڈی اے نے اس کا کاروبار بند کردیا جس کے بعد اس نے اپنا ہال کرائے پردے دیا۔

اب بجلی کے محکمے سے دوبارہ واسطہ پڑگیا۔ کیونکہ اب اسے ٹرانسفارمر سے بجلی کا لوڈ زیادہ درکار نہیں تھا جس کے لیے اس نے محکمے کو درخواست دی کہ برائے مہربانی اس ٹرانسفارمر سے لوڈ کم کردیا جائے تاکہ اس کی بجلی میں کچھ بچت ہو جائے۔ مگر محکمہ تو اتنی آسانی سے ماننے والا نہیں تھا۔ پھر اسے یہ کام بھی ڈھائی لاکھ روپے رشوت دے کر ہی کروانا پڑا۔

عمران خان صاحب ان محکموں کے منہ زور افسروں اور اہلکاروں کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکے بلکہ ملک میں افرتفری اور بے یقینی کی صورت حال پیدا کردی جو ابھی مکمل طور پر دہشت گردی کی لہر سے نکل نہیں پایا۔

ٹیکس چور، کرپٹ افسر اور سرکاری اہکار، رسہ گیر اور قبضہ کروپ کبھی بھی اپنی خوشی سے ٹیکس نہیں دیں گے اور نہ ہی وہ اپنے کاموں سے باز آئیں گے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایک تو سرکاری افسر ان سے لاکھوں کی رشوت لیتے ہیں اگر نہ دیں تو ان کے کاروبار میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور دوسرا یہ کہ حکومت ٹیکس کے بدلے میں سہولیات کیا دے رہی ہے۔ تعلیم، صحت سمیت ہر کام تو نجی شعبے کے سپرد کردیا گیا ہے۔

لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ چار سال دھرنوں اور سیاسی عدم استحکام نے ان کے کاروبار کو خاصا نقصان پہنچایا اب نئی حکومت آئے گی تو وہ سرمایہ کاری کریں گے مگر الٹا کاروبار مزید ٹھپ ہو گیا۔

بڑھکوں، دھمکیوں، ایمانداری کی قسمیں کھانے اور خوابوں خیالوں کی دنیا میں رہنے سے یہ نظام ٹھیک ہونا والا نہیں ہے بلکہ کچھ نئے اور منفرد، غیرروایتی، جدید ٹیکنالوجی کواستعمال میں لاتے ہوئے ایسے اقدامات لینا ہوں گے کہ لوگوں کے پاس ٹیکس چوری کرنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔

اس دور میں جب پوری دنیا نے اسکولوں اور تھانوں میں تشدد ختم کردیا، پھانسی کی سزائیں دینا بند کردیں، پھر بھی تعلیم میں وہ سب سے آگے ہیں، عوام ٹیکس ادا کررہے ہیں، جرائم کم ہو گئے ہیں۔ وہ اس لیے کہ انہوں نظام کو بہتر کیا اور لوگوں کو سہولتیں دے کر آہستہ آہستہ زیادہ ٹیکس دینے پر راضی کیا۔ ذرا اس پر بھی غور کرنا ہوگا کیونکہ ملک میں گوالمنڈی کی سوچ نہیں چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).