غلام فریدا میں مر گئی آں


پھل، مکھن، گوشت، سبزیوں کی طرح تعلیم بھی غریبوں کی زندگی سے نکال لی گئی ہے۔ تعلیم منڈی میں پہنچا دی گئی ہے۔ وہی خریدے گا جس کی گرہ میں مال ہوگا۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ایک مہنگے تعلیمی ادارے کے نمائندے نے کہا۔ ” اگر آپ کے خیال میں تعلیم مہنگی ہے تو جہالت آزما کر دیکھ لیں“۔ اب انہیں کون بتائے کہ مہنگی سستی ہونے کا مسئلہ نہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے اور اسے مہیا کرنا ریاست کا فریضہ۔

ہمارے ساتھ کیا کچھ ظلم نہیں ہوا۔ سبسڈی شوگرملوں کو دی گئی۔ کتاب کو نہیں۔ کاغذ کو نہیں۔ یہ بہت محنت سے بندوبست ہوا ہے کہ کتاب لوگوں کی زندگی سے نکال دی جائے۔ ان پڑھوں کو چھوڑیں، پڑھے لکھوں کا یہ حال ہے کہ چار میں سے تین افراد نے نصابی کتب کے علاوہ عمر بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ بیداری کا چشمہ کتاب سے پھوٹتا ہے۔ وحی کا پہلا حرف پڑھنے کا حکم ہے۔ جس معاشرے میں سرے سے پڑھنے کا رواج نہ رہے، وہاں برگسان اور نٹشے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ٹی وی دیکھنا، کتاب پڑھنے کا ہرگز نعم البدل نہیں۔ پڑھنے میں فعالیت ہوتی ہے اور ٹی وی دیکھنے میں مفعولیت۔

اک زمانے میں سیاست پر صرف جاگیردار قابض تھے اور ان کی سیاست کا مقصد صرف اپنی جاگیریں بچانا تھا۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خاں پنجاب کے آخری انگریز گورنر سے ملنے گئے۔ وہ پریشان ہو گئے جب انہیں پتہ چلا کہ انگریز واقعی ہندوستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انگریز گورنر ان کی پریشانی بھانپ کر انہیں مسلم لیگ یا کانگریس کسی ایک جماعت میں شمولیت کا مشورہ دینے لگا۔ یہ مشورہ دے کر اس نے پوچھا۔ کیا آپ کو اس میں کوئی دقت تو نہ ہوگی؟ نواب آف کالا باغ بولے۔ نہیں بالکل نہیں۔ میں دونوں جماعتوں کو باقاعدگی سے چندہ دیتا رہتا ہوں۔ سو! جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں شامل اور قابض ہونے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس طرح مغربی پاکستان میں ان کی جاگیریں محفوظ رہیں۔ جاگیرداری نظام بنگال میں اس طرح طاقتور نہیں تھا۔

ہندوستان کی تقلید میں مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے 1948 میں جاگیرداری کے خاتمے کی قرارداد منظور کرلی۔ کچھ اصحاب رائے اس قرارداد کو ہی بنگلہ دیش کی عمارت کی پہلی اینٹ قرار دیتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر مسلم لیگی بزرگ ہر شہر میں تعلیمی رفاہی ادارے چلا رہے تھے۔ انہیں یہاں سے جانے والے ہندو، سکھ قوم کے تعلیمی اداروں کی وسیع و عریض عمارتیں ہاتھ آ گئی تھیں۔ جذبہ، جوش بھی بے پناہ تھا اس لئے قوم کے بچوں کو ارزاں تعلیمی سہولتیں میسر آتی رہیں۔ بھٹو نے یہ تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے کر قوم پر بہت بڑا ظلم کیا۔

اس طرح خدمت خلق والے لوگ تعلیمی میدان سے نکل گئے۔ اس خلاء کو تعلیم فروشوں نے پورا کیا۔ تعلیم بن سنور کر منڈی میں بیٹھ گئی۔ ”صرف گرہ میں مال والا ہی پاس آئے، باقی دور پرے رہیں“۔ سیاست میں ایک اور طبقہ بھی آن موجود ہوا۔ یہ ٹاﺅن ڈویلپرز اور پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ یہ قوم کو رہائشی سہولتیں مہیا کرنے کے نام پر میدان میں اترے ہیں لیکن اصل کہانی یوں ہے۔ مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا۔ انہوں نے سرمایہ کاری کو صرف پلاٹ کی خریداری بنا دیا ہے۔ اب کیا ضروری ہے کہ مکان تعمیر کرنے والے ضرورت مند تک رہائشی پلاٹ بیس آدمیوں کو باری باری نفع پہنچا کر پہنچے؟

نفع نقصان کے بغیر گوجرانوالہ میں آخری رہائشی سکیم بھٹو دور کی یادگار ہے۔ اس میں صرف کمرشل اور ایک ایک کنال کے رہائشی پلاٹ نیلام کئے گئے۔ باقی ساڑھے تین مرلے، پانچ مرلے اور دس مرلے کے پلاٹ، تین سال کی آسان اقساط پر اکیس سو روپے مرلہ کی قیمت پر دیئے گئے۔ وہی تصوراتی حسین منظرنامہ کہ زکوٰة لینے والا ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ اس لو انکم ہاﺅسنگ سکیم میں ساڑھے تین مرلہ پلاٹوں کی تعداد دو ہزار تھی۔ لیکن درخواست گزار صرف تیرہ سو نکلے۔ سو! ساڑھے تین مرلے کے تمام درخواست گذاروں کو بغیر قرعہ اندازی کے پلاٹ مل گئے۔ پانچ مرلے، دس مرلے کے پلاٹوں کیلئے قرعہ اندازی ہوئی۔ لیکن یہاں بھی ایک انار سو بیمار والا معاملہ نہیں تھا۔ جتنے پلاٹ تھے زیادہ سے زیادہ ان سے ڈیوڑھی یا دوگنی تعداد میں درخواستیں تھیں۔

اس کے بعد ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو رہائشی سہولتیں مہیا کرنے سے باز آ گئی۔ جنرل ضیاءالحق نے آکر روٹی، کپڑا، مکان کے معاملات سیدھے سبھاﺅ اللہ میاں کے سپرد کر دیئے۔ بھٹو کے زمانہ میں سیاست صرف جاگیرداروں کے نرغے میں تھی جب شاعر نے کہا تھا ’گھری ہوئی ہے سیاست تماش بینوں میں‘۔ پھر اس میدان میں دو طبقے اور آن دھمکے۔ ایک تعلیم فروش اور دوسرے ٹاﺅن ڈویلپر۔ اب سیاسی جماعتوں پر یہ بھی قابض ہو گئے۔ اب کوئی سیاسی جماعت تعلیمی یا رہائشی پالیسی بناتے ہوئے ان کے مفادات نظر انداز نہیں کر سکتی۔

رہا ہمارا تاجر طبقہ یہ ریاست کا ٹیکس، جگا ٹیکس سمجھتا ہے۔ ہم ہندو کلچر سے متاثر اپنی لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دار نہیں سمجھتے۔ مہذب ملکوں میں ڈیتھ ڈیوٹی کے ذریعے ریاست کسی متوفی کے مال املاک میں سے پچاس فیصد تک بھی حصہ دار ہے۔ مہذب ملکوں میں سیاست ایک سوشل سروس کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک انڈسٹری ہے۔ انڈسٹری بھی وہ جو جعلی مشروبات، کاسمیٹکس، ادویات اور دیگر دو نمبر پراڈکٹ بنانے والی ہو۔ میاں نواز شریف کے خلاف جج ارشد ملک کے کمزور فیصلوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے کرپٹ سیاستدان کتنے طاقتور ہو گئے ہیں۔

                                تن ہانڈی وچ ہجر مصالحہ                      اُتے لون صبر دا پایا

                                غلام فریدا میں مر گئی آں                      تینوں اجے سواد نہ آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).