میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے ملزم معظم علی کی بیوی ہوں اور انصاف مانگتی ہوں


اکثر لوگ پوچھتے ہیں آپ حکومت کے خلاف اتنا کیوں لکھتی ہیں۔ آج کوشش کرتی ہوں کہ جواب دے سکوں۔

دو ہزار آٹھ کو اللہ پاک نے مجھ سے پورے نو ماہ کی بچی واپس لے لی۔ آپریشن سے مردہ بچی کی پیدائش بہت بڑی آزمائش تھی اور شکر اس مالک کا کہ مجھے میرے باقی بچوں کے لئے زندگی عطاکی۔ میں جسمانی صحت سے ابھی سنبھلی نہیں تھی کہ دوسرے ہی ماہ میری ساس محترمہ فالج کے اٹیک سے بستر پہ آ گئیں۔ گیارہ فروری کوساس انتقال فرما گئیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور میری خدمت قبول فرمائے۔

اللہ پاک نے ایک بچی واپس لی توشاید اس کو رحم آگیا میری مامتا پہ اور دو ھزار دس اگست کو میری ایک بیٹی اور پیدا ہوئی۔ میں صحت کھو چکی ہوں۔

سولہ ستمبر کو ڈاکٹرعمران فاروق کا قتل ہوگیا بہت دکھ ہوا ایک دن بعد ہم الطاف بھائی کی سالگرہ بھی مناتے تھے لیکن اس سانحہ کے بعد ایسی کوئی خوشی نہیں منائی گئی۔

زندگی یونہی رواں دواں تھی پھرغالباُ دوہزار تیرہ میں بی بی سی کی ایک رپورٹ جو ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل پہ بنی تھی اس میں اسٹوڈنٹ ویزہ کے لئے پیسے دینے والی کمپنی کا جو نام آیا وہ میرے شوہر کی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی خبرسے ایک عام آدمی کی طرح ہم بھی ڈرگئے لیکن شکرالحمدللہ سکارٹ لینڈ یارڑ لندن سے کوئی انوسٹیکیشن کے لئے کوئی کال نہیں آئی جبکہ یہ بات بھی واضح ہوگئی تھی کہ ڈاکٹرصاحب کے قاتل پاکستان میں اگلے ہی دن گرفتار ہوچکے ہیں۔ اسی دوران اللہ نے ایک اور رحمت سے نوازا۔

نبیل گبول اپنی سیٹ خالی کر دیتا ہے جوکہ عزیزآباد میں تھی۔ اس پر ضمنی الیکش کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ وہ سیٹ تھی NA 246 جواب NA 256 ہے الیکشن دوہزار پندرہ یعنی کہ ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کے پانچویں سال الطاف بھائی کے خلاف ریاست اپنا پرانا کھیل شروع کر دیتی ہے جس کے زیرعتاب صولت مرزا بھی آئے۔

یہ سیٹ الطاف حسین ہار جائے اس کے لئے چھاپے اور گرفتاریاں شروع کردی گئیں ایک بڑا چھاپہ نائن زیرو پہ مارا گیا جس میں گرفتار اکثر ساتھی باعزت باہر آ چکے ہیں۔ اسی دوران بارہ اور تیرہ کی درمیانی شب میرے گھر چھاپہ پڑا بغیر لیڈی اسٹاف کے جبکہ مجھ سمیت میری جوان بچیاں نندیں اور بھتیجیاں بھی اس دن گھر پہ تھیں۔ معظم کو ننگے پاؤں گھر سے لے گئے۔

اس دن سے آج تک جوکچھ ہم پہ بیتا اس کا تو اللہ گواہ ہے میں جسمانی طور پہ تو ختم تھی ذہنی کرب میں مبتلا ہوکر رہ گئی ہوں۔

ان حالات میں ہر موقع پرست نے اپنے اپنے حصے کا فائدہ اٹھایا کسی نے ہمدری دکھا کر، کسی نے پیٹھ موڑ کر۔ اپنے غیر ہوگئے جو ہر وقت معظم کا دم بھرتے تھے، آج ان کا ذکر کرنے سے گھبراتے ہیں۔

اور آج ہم اس نہج پہ ہیں کہ اب گھر کے سامان میں سے کیا بیچیں، یہ سوچتے رہتے ہیں۔

پانچ سال بعد معظم کو گرفتار کر کے اس قتل میں استعمال کیا گیا کیوں؟ اس لئے مجھے شکایت ہے۔ دو ہزار دس میں کاشف خان، کامران اور سید محسن کو جب گرفتار کر لیا تھا تو اس وقت قاتل کیوں نہیں ڈھونڈے۔

اس لئے مجھے شکایت ہے۔

دوہزار گیارہ میں خالد شمیم کو گرفتار کر لیا تھا تب اس کیس کو حل کیوں نہیں کیا گیا۔

اس لئے مجھے شکایت ہے۔

معظم علی کوعین الیکشن کے دوران قربانی کا بکرا بنایا گیا اور گرفتار کیا گیا

اتنے برس کیوں لٹکایا کیس کو اور گرفتاری عمل میں کیوں نہیں لائی گئی؟

میرا یہ بھی سوال ہے خالد شمیم جو پانچ سال لاپتہ تھا کو اسی وقت کیوں شو کیا گیا جب معظم کو قاتل مشہور کر دیا۔

چھ مہینے پاکستانی میڈیا یہی باورکراتا رہا کہ اللہ نہ کرے معظم قاتل ہیں تو پھر پانچ سال کس بات کا انتظار کیا؟

میری مخالفت اس وقت تک جاری رہے گی جب میں اپنے شوہر اور اپنے بچوں کے لئے انصاف نہ لے لوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).