تعلیم، استاد اور طالب


ہم سب طالب ہیں، ہر اس شے کے جس کو ہم پر مکمل واضح نہیں کیا گیا۔ پہلے زبان نہیں تھی تو اس کو بنایا، اصول زبان کے فہم کی ترسیل کو سمجھا اور سمجھایا۔ زندگی گزارنے اور زندہ رہنے کے لئے ہر ممکن انتظامات کے راستے استوار کیے۔ مرتے ہوئے لوگوں کو طب کی ترقی نے بچایا مگر وہ پھر بھی مر گئے۔ زمین، آسمان اور ان کے موجودات کو سمجھا، نصاب اور استاد کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے تعلیمی ادارے بنائے مگر سب کی بنیاد ایک مقام پر آکر سانس لیتی اور وہ تھی، ”معیشت“۔

پچھلی صدی ایک لحاظ سے گزشتہ تمام صدیوں سے منفرد ہے کہ اس میں انسان رومانیت سے نکل کر جدیدیت اور پس جدیدیت اور اب میٹا جدیدت کے دور میں سفر کر رہا ہے۔ مگر ان سب انقلابی تحریکوں میں حاصل کیا ہوا؟ آسمان کو چھوتی عمارتیں، مشینیں، معلومات اور شناسائی یا ”بہتری“۔ یہ بہتر کیا ہے؟ آج کا سب سے بڑا سوال شاید یہ ہی ہے۔ انسان اپنی بہتری کے ساتھ ساتھ بہتر وقت اور بہتر ماحول اور مجموعی بہتری چاہتا ہے۔ اس کے لئے ہر طرح کے انقلاب برپا ہوئے مگرایک انقلاب کے بعد دوسرے انقلاب کا انتظار رہتا ہے کہ مزید بہتر ہو جائں۔

ادھر ہم ارتقا کو روند کر انقلاب کا جھنڈا لگاتے ہیں تو یک دم احساس مزید بہتری کی گھنٹی بجاتا ہے۔ مگر بھول جاتے ہیں ارتقا کا سفر اس لئے جاری ہے کہ وہ قدرتی بنیادوں پر آگے بڑھ رہا ہے اور انقلاب ایک رٹا باز طالب علم کی طرح بے شمار نمبر حاصل کر کے بھی تخلیقی قوتوں سے کہیں دور ایک جملہ بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں سے نہیں لکھ سکتا۔ مگر وہ بچہ جو پس ماندہ گاؤں میں پلتا ہے تعلیم کا فقدان ہے مگر اس کا ”استاد“ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ بن گیا ہے، اور چند برسوں میں ہم دیکھ لیں گے کہ سکولوں میں استاد نہیں یہ مشینیں علم بانٹ رہی ہوں گی۔

یعنی outsourcing کا ہدف تعلیم کے میدان میں یوں ہو گا کہ انسانی ذہن سے زیادہ مشینوں اور انٹرنیٹ کا حکم چلے گا۔ حکومتوں کی تبدیلی، انسانوں کے حالات اور بہتر حالات سے لے کر زندگی اور موت کے درمیانی فاصلے میں حکومت ان انٹرنیٹ کے انقلابی ارتقا کی ہو گی۔ اب ماں کی گود سے لے کر سکول کے استاد اور انسانی جذبات کے معاملات کے لئے ہم اپنی ”تخلیق“ ( انٹرنیٹ) سے مدد لیتے ہیں اور عالم دو جہان کی تخلیق کے جوہر ”ذہن“ کو اس کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ تو ثابت یہ ہوا کہ ہر دور میں ”تخلیق“ بہتر ہے، اور تخلیقی صلاحیت بہترین ہے۔ اگر کوئی طالب علم امتحانوں میں کم نمبروں سے پاس ہو تو یہ اس کے تخلیقی پیمانوں کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ان تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کے اصولوں کا امتحان ہوتا ہے۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).