مہاتیر کے دیس میں


ملائشیا جانا مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ اس ملک سے میری کچھ پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ آج سے اٹھارہ برس قبل، میں نے پہلی بار اپنے والد کے ہمراہ اس ملک کا سفر کیا تھا۔ ہم لوگ سنگاپور میں تھے۔ والد صاحب کوکام کے سلسلہ میں ملائشیا جانا تھا۔ ہم بہنیں بھی ساتھ جانے کو تیار ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی پاسپورٹ کی عزت و آبرو قائم تھی۔ مجھے یاد ہے سنگا پور، کوریا، جاپان، ہانگ کانگ اور ملائشیا جیسے ممالک کے ویزوں کے لئے دھکے نہیں کھانا پڑتے تھے۔

بس ٹکٹ لیا اور جہاز میں سوار ہو گئے۔ متعلقہ ملک کے ہوائی اڈے پر انٹری ویزہ با آسانی مل جایا کرتا تھا۔ اس ویزہ کو مزید extendکروایا جا سکتا تھا۔ ملائشیا پہنچتے ہی ابو نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ اس ملک کو سنگاپور نہ سمجھا جائے۔ یہ اسلامی ملک ہے۔ قدامت پرست معاشرہ ہے۔ جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔ باہر جاتے وقت سرپر دوپٹہ رکھنا ہے۔ شام کے وقت اکیلے ہوٹل سے باہر نہیں نکلنا۔ میری شادی شدہ بہنوں کو ہدایت کی کہ ہاتھوں اور کانوں میں سونے کا زیور وغیرہ پہن کر ٹیکسی میں نہیں بیٹھنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سن کر اس وقت میں نے سوچا تھا کہ ایک غیر مسلم ملک تو اس قدر محفوظ ہے کہ ہم خواتین وہاں آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں۔ مگر یہ اچھا اسلامی ملک ہے، جہاں شام کے بعد ہمیں اکیلے باہر جانے کی ممانعت ہے۔ ان اٹھارہ برسوں میں ملائشیا نے بہت ترقی کی ہے۔ ملائی سماج میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ تاہم سنگاپور اور ملائشیا کا فرق آج بھی برقرار ہے۔

اس مرتبہ ملائشیا جانے کا مقصد ایک ورکشاپ اور علمی کانفرنس میں شرکت کرنا تھا۔ ملائشیا روانگی کے لئے صبح سویرے ایئر پورٹ پہنچی۔ ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر گاڑیوں کا غیر معمولی رش تھا۔ داخلی دروازے پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ پاسپورٹ اور ٹکٹ دکھانے کے بعد اندر داخل ہوئی۔ سامان سکینر سے گزارا۔ چند قدم آگے بڑھی تھی کہ سیکورٹی اہلکار نے روک لیا۔ ایک کاونٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنا بیگ چیک کروائیں۔

حیرت اور بے زاری کے ساتھ میں کاونٹر پر پہنچی۔ بہت سے لوگ اپنا سامان چیک کروا رہے تھے۔ میں نے بھی اپنا سوٹ کیس (جو تقریبا خالی تھا) کھول کر سامنے رکھ دیا۔ تلاشی لینے والی لڑکی نے انتہائی بے دلی کے ساتھ بیگ دیکھا۔ یوں جیسے محض خانہ پری درکار ہے۔ (پنجابی محاورے کے مطابق بس گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے لئے ) ۔ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے میں نے پوچھاکہ کیا سکینر (scanner) خراب ہے جو سامان کی دستی) (manual تلاشی لی جا رہی ہے؟ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر لڑکی نے جواب دیا۔ سکینر نہیں حکومت خراب ہے۔ پھر مجھے مسکراتے دیکھ کر کہنے لگی۔ بس اوپر سے آرڈر ہے جی۔

یہاں سے میں ائیر لائن کاونٹر کی طرف بڑھی۔ قطار میں کھڑی تھی جب ایک نوجوان لڑکی ہاتھ میں کچھ کاغذات تھامے چلی آئی۔ نام، پتہ، فون نمبر وغیرہ پوچھنے لگی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اب یہ کیا نیا طریقہ کار ہے۔ تفصیلات فراہم کرنے سے پہلے میں نے دریافت کیا کہ سسٹم مینوئل ہو گیا ہے یا کمپیوٹر خراب ہیں؟ کہنے لگی کہ تما م ریکارڈ کمپیوٹر میں موجود ہے۔ مگر یہ نئے رولز ہیں۔ ہر روز اسی طرح فہرست بنتی ہے۔ تجسس کے ساتھ میں نے پوچھا کہ کمپیوٹر میں ریکارڈ کی موجودگی کے بعد، اس فہرست کا کیا استعمال اور جواز ہے؟

اس نے سرگوشی کی۔ ”کچھ بھی نہیں۔ بس آنیاں جانیاں ہیں“۔ بورڈنگ پاس لینے اورسامان جمع کروانے کے بعد، امیگریشن کاونٹر کی طرف دیکھا تو وہاں بھی کافی رش تھا۔ وہ کاونٹر جو ”اکیلی خواتین/ بزرگ / معذور افراد“ کے لئے مخصوص ہوا کرتا ہے۔ وہاں تقریبا تیس چالیس مرد حضرات کھڑے تھے۔ میں نے بغور ان سب کا جائزہ لیا۔ سب ہٹے کٹے تھے۔ ہاتھ پاوں بھی سلامت تھے۔ مجھے تسلی ہوئی کہ قطار میں کوئی ایک بھی معذور نہیں ہے۔ چناچہ میں نے ”اخلاقیات“ کوایک طرف رکھا اورکا ونٹر پر سب سے آگے پہنچ گئی۔ پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے بعد جب میں لاونج کی طرف بڑھ رہی تھی تو میرا مجموعی تاثر یہ تھا کہ آج ائیر پورٹ پر بہت زیادہ بے ترتیبی ہے۔ سارا نظام جیسے کسی ”گو سلو پالیسی“ پر عمل پیرا ہے۔

روانگی میں چونکہ کچھ وقت باقی تھا۔ سو بک شاپ کا رخ کیا۔ کتابوں کا جائزہ لینے کے بعد دکان دار سے کہا کہ یہ سب تو پرانی کتابیں ہیں۔ کوئی نئی کتاب آئی ہے تو دکھائیں۔ کہنے لگا کہ کچھ عرصہ سے کتاب بک نہیں رہی تو نئی کیسے چھپے گی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ 2018 کے آغاز سے کاروبار میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔ اب چند ماہ میں حالات بہت زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ کتابوں کی فروخت میں تقریبا 70 فیصد کمی آگئی ہے۔ گزارا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کتابوں کی دوسری دکان میں گئی تو اس دکاندارنے بھی کم وبیش یہی باتیں دہرائیں۔ دکان سے نکلتے ہوئے میں نے سوچا کہ پانامہ لیکس سے شروع ہونے والا کھیل ہمارے ملک کی پھلتی پھولتی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ گیاہے۔ معلوم نہیں ڈھلوان کا یہ سفر کہاں جا کر تھمے گا۔

کوالالمپور پہنچ کر میں نے پاکستان اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ اگلے دن مجھے ورکشاپ اٹینڈ کرنا تھی۔ یہ ورکشاپ یونیورسٹی کے اپنے اساتذہ کے لئے مخصوص تھی۔ تاہم میں نے اس میں شرکت کی خصوصی اجازت لے رکھی تھی۔ صبح سویرے جب میں یونیورسٹی پہنچی تو ورکشاپ شروع ہو چکی تھی۔ ایک علیحدہ گول میز پر ایک خاتون اکیلی بیٹھی تھیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وقفے میں ان خاتون نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ پروفیسر ڈاکٹر لطیفہہ تھیں۔ اس یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی سربراہ۔ انہی کے زیر سرپرستی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ یہ جان کر وہ بہت خوش ہوئیں کہ میں پاکستان سے آئی ہوں۔ نہایت محبت اور گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا۔

دوسراسیشن شروع ہوا تو ڈاکٹر لطیفہہ کھڑی ہوئیں اور حاضرین سے میرا تعارف کروایا۔ کہنے لگیں کہ ”یہ پاکستان سے آئی ہیں۔ پاکستان جو ایٹمی قوت ہے“۔ ان کی اس بات پر ہال میں تالیاں گونج اٹھیں۔ محاوتا نہیں حقیتا میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے یہ سر ندامت سے جھکتا چلا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والی تین اہم ترین شخصیات اور ان کے ساتھ کیا جانے والا بھیانک سلوک مجھے یاد آگیا۔

سب سے پہلا خیال ذوالفقار علی بھٹو کا آیا جنہوں نے امریکی مخالفت اور سنگین دھمکیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی۔ اس بھٹو کو قاتل قرار دے کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ مجھے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یاد آئے۔ جو پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے ہالینڈکی پرکشش نوکری چھوڑ کر وطن واپس آئے اور معمولی تنخواہ پر کام کرتے رہے۔ صلہ انہیں یہ ملا کہ ایک ڈکٹیٹر نے انہیں قومی راز افشا کرنے کا مرتکب مجرم قرار دیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر بٹھا کر سر عام معافی منگوائی۔ اور ان کو نظر بند کیے رکھا۔

تیسرا خیال مجھے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا آیا۔ وہ نواز شریف جس نے تمام تر عالمی دبا و مسترد کرتے ہوئے بھارتی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس کارنامے کے کچھ عرصہ بعد اس کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اسے ہائی جیکر اور ملک دشمن قرار دے کر اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔ اور آخرکار خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا۔ میں سوچتی رہی کہ کس قدر سیاہ تاریخ ہے ہماری۔

اور کتنا بد قسمت ملک ہے یہ۔ جہاں جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنے والے، آئین پاکستان کو توڑنے اور ا پنے قدموں تلے روندنے والے، سنگین غداری کا ارتکاب کرنے والے قومی مجر م تو ڈنڈے کے زور پر وطن عزیز پر قابض رہے۔ مرنے کے بعد قومی پرچم میں لپٹ کر دفن ہوتے رہے۔ گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوتے رہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے والے، ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے، سی۔ پیک اور گوادر جیسے منصوبوں کی بنیاد رکھنے والے پھانسی چڑھتے رہے۔ جیلیں کاٹتے رہے اور جلا وطنیاں بھگتتے رہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).