ایک گمنام ادیب کی مغموم مسکراہٹ


ہم دونوں پیربابا کے مزار کے عین سامنے کھلی صحن میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ انتہائی حبس میں صرف ہمارے اوپر اڑتے پرندے ہی تروتازہ لگ رہے تھے۔ وہ میرے سامنے کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ سامنے کتابوں کا ڈھیر تھا ’اس کے چہرے پر تاحیات ثبت ہونے والی مغموم جادوئی مسکراہٹ تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ جانور نما انسانوں کے اس دنیا میں وہ ترہتر سال کی عمرمیں سب کا مذاق اڑا رہا ہے اور ایک میں تھا جس کے پاس صرف حیرانی تھی۔ ہم دونوں کے درمیان سکوت کے پردے حائل تھے لیکن اچانک اس نے خاموشی توڑدی اور گویا ہوئے۔

انسان جوانی میں ناسمجھ اور زندگی کی اصل روح کو پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑھاپا جب انسان کو گھیر لیتا ہے تو پھر چہرے کے جھریوں پر پژمردگی اور زبان پر کاش کاش کی صدائیں ہوتی ہیں۔ میں نے جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں یہ جوانی کے بعد لکھی ہیں۔ میری نوجوانی غربت کے ساتھ لڑتے گزری جس میں میرا محبوب ترین مشغلہ غلیل کے ساتھ میری محبت تھی۔ نوجوانی میں باغبانی کرکے، چھتریوں، صندوقوں اورلالٹینوں کی مرمت کرکے میں کچھ نہ کچھ کمالیتا لیکن میں نے ہمیشہ تمام حالات میں اپنے اندر ایک بے قرار لکھاری کو محسوس کیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ میں نے جوانی میں بھی بہت ساری غزلیں لکھی ہیں اور نثرنگاری کی ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں لکھ کر پھاڑ دیتا۔

آج میرے کتابوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے لیکن اس میں جوانی کے دور کی شاید ہی کوئی کتاب ہوگی۔ میں لکھا پڑھا نہیں ہوں لیکن پھر بھی میرے اندر ہمیشہ ایک لکھاری موجود رہا اور جس کی تشنگی کو قابو کرنے کے لئے میں نے جب قلم اٹھایا تو قلم کی نوک سے تاریخ پر، ادب پر اور پشتو زبان کی ترویج پر پچاس سے زیادہ کتابیں نکل آئی۔

یہ سن کر میں نے پوچھا ’بابا جی آپ نے یوسفزئی قوم کی تاریخ پر خصوصی توجہ دی ہے اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔

یہ سن کر ایک مغموم مسکراہٹ کے ساتھ اس نے لب کھولے ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یوسفزئی قوم کی تاریخ لکھ کر میں نے شاید کوئی اتنا بڑا کام نہیں کیا لیکن اس تاریخ کو لکھنے کے لئے میں نے جو تحقیق کی اس میں مجھے پتا چلا کہ جتنے بھی نامور مورخین نے یہ تاریخ مرتب کی ہے ان سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ یوسفزئی قوم کی تاریخ لکھتے وقت انہوں نے ان تمام اقوام کو نظر انداز کیا جو یوسفزئی قوم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جڑی رہی۔ میں نے اپنی کتابوں میں بالخصوص طور پر ان اقوام کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ دوسری جو سب سے اہم بات ہے مؤرخین نے پشتون قوم کے اصل مآخذ کا ذکر کھلے انداز میں نہیں کیا ہے۔

آپ تاریخ کے علاوہ اپنی اور کتابوں کا بھی تھوڑا ذکر کریں۔ میں نے پوچھا۔

وہ یہ سن کر اچانک بولے ’میں نے پشتو کے افسانے لکھے ہیں اس کتاب کا نام ہے ”ازغنہ لار“۔ شاعری میری ”د ورک منزل لٹون“ نامی کتاب میں محفوظ ہے۔ میں نے ”دبونیر تاریخ“ کے نام سے ایک مٖفصّل کتاب لکھی ہے جس میں میں نے بونیر کی حقیقی تاریخ قید کی ہے۔ ”تذکرہ اولیائے کرام“ بھی میری ایک مستند کتاب ہے جسے پڑھنے کے بعد بہت سارے لوگ مجھ سے ملنے یہاں تک آئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتابیں میری موجود ہیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑ رہی۔

کتابیں لکھنے کے بعد چھپائی کا بندوبست کیسے کرلیتے؟ میں نے پوچھا

یہ سن کر اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور گویا ہوئے ’میں لوگوں سے چندہ مانگتا تھا۔ میں جو روزی کماتا اس میں بمشکل روٹی کا بندوبست ہوپاتا۔ چندہ مانگتے مانگتے مجھے بے تحاشا گالیاں بھی پڑی اور ہزار بار دھتکارا بھی گیا۔ ایک بار غلام احمد بلور مجھ سے ملنے اس مزار تک آگئے۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے بہت عزت بھی دی اور مالی تعاون بھی کیا۔ جاتے جاتے اس سے ایک درخواست کی کہ پشتون قوم کا ہمارے بعد اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ جو نسل جوان ہورہی ہے ان کا پشتو سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اس کے علاوہ فضل کریم، عمران اللہ خان، تحصیلدار ابرار احمد اور دوسرے بھی بہت سارے دوستوں نے کئی مواقعوں پر میری مدد کی۔

آپ کو بونیر کے لوگوں سے کوئی شکوہ ہے؟ میں نے پوچھا

ایک دفعہ پھر اس مغموم مسکراہٹ کا دیدار کرایا گیا جو اس پوری محفل میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے چہرے سے غائب نہیں ہوئی تھی۔وہ کہنے لگے۔ شکوں کا تو میں عادی نہیں لیکن مجھ سے وہ رسم نہیں نبھائی گئی جو پشتوں معاشرے میں فخر سے نبھائی جاتی ہے۔

آپ کا اپنا گھر بھی تو یہاں قریب ہی ہے پھر آپ کیوں پیربابا کے مزار میں ہوتے ہیں۔

سکون کا متلاشی مسکرایا، لب کھولے اور چادر جھاڑ کر کہنے لگے۔ یہاں میری خلوت مجھے مجھ سے ملادیتی ہے اور میں جب خود سے مل جاتا ہوں تو پھر سکون ہی سکون ہوتا ہے۔

آپ نے اپنی زندگی میں سب سے بڑا سبق کیا سیکھا۔ میں نے پوچھا۔

وہ کہنے لگے ’میں نے پچاس سے زیادہ کتابیں لکھ کر ایک ہی بہت بڑا سبق حاصل کیا ہے کہ جوانی زندگی کا وہ حسین دور ہوتا ہے جس میں اگر کوئی کچھ خاص کرنا چاہے تو بلاشبہ کرسکتا ہے کیونکہ بڑھاپے کی ورزش بہت خطرناک ہوتی ہے۔

آپ نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

وہ بولنے لگے۔ نوجوان ادیبوں اور شعراء سے میرا ایک ہی شکوہ ہے کہ ان لوگوں کی تاریخ پر گرفت بہت کمزور ہے۔ یہ اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے لازمی ہے کہ اپنی تاریخ ضرور پڑھ لیں۔

یہ کہہ کر وہ اٹھے، اپنی چادر کندھوں پر ڈالی اور تپتی زمین پر آہستہ آہستہ پیربابا مزار کے صحن میں واقع اپنے کمرے کی طرف چلنے لگے۔

یہ کہانی انور بیگ باغی کی ہے جس کا تعلق بونیر کے علاقے پاچا سے ہے اور جو کئی بہترین کتابوں کا مصنف ہے لیکن گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آج کل پیربابا کے مزار ہی میں ہوتے ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم حوصلہ افزائی میں بھی کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ہم سارا دن سیاستدانوں کی آؤ بھگت میں گزار دیتے ہیں لیکن انور بیگ باغی جیسے لوگ اس معاشرے میں ہم سے ناراض ہیں کیونکہ وہ صرف ہمارا وقت چاہتے ہیں اور ہمارے پاس ان جیسے ہیروں کے لئے وقت کی شدید کمی ہوتی ہے۔

انور بیگ باغی جیسے لوگ پیسوں اور سہولیات کی پرواہ بالکل نہیں کرتے ان کو صرف محبت کے دو بول چاہیے ہوتے ہیں۔

حکومت سے میری اپیل ہے کہ اس نایاب ہیرے کے لئے اور کچھ نہیں کرسکتے تو ماہانہ وظیفہ ہی مقرر کردیں کیونکہ اگر لکھنے والے اس معاشرے سے رُوٹھ گئے تو یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہوگا۔

میں جتنی دیر اس عظیم انسان کے سامنے موجود رہا صرف ناراضگی ہی مجھے نظر آئی۔ ہم کسی کو کیا دے سکتے ہیں سوائے محبت اور حوصلہ افزائی کے۔

آخر میں میں اس کے کمرے میں گیا توشدید سناٹے نے میرے اعصاب پر بوجھ بڑھا دیا۔ سامنے اس کی خاموش کتابیں پڑی تھیں۔ کمرے کے ایک کونے میں وہ دبک کر بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں سے جب میں نکل رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کتابوں کے ڈھیر سے ہزار چیخیں آرہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).