جارج آرویل کا جانور راج


اسے اتفاق ہی کہیے کے سالوں سے پینڈنگ جارج آرویل کا ناول ”اینیمل فارم“ جب ختم کیا تو ہم سب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آمنہ مفتی صاحبہ کا اسی ناول کا اردو ترجمہ ”جانور راج“ کے نام سے نظروں سے گزرا۔ چند صفحات پڑھ کر ہی اندازہ ہو گیا کے ترجمے کا حق خوب ادا کیا گیا ہے۔ باکمال ادب کی چند علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زمان، مکان اور زبان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ آمنہ مفتی نے اینیمل فارم کو اردو پڑھنے والوں کی حد تک زبان کی قید سے رہائی عطا کی جس پر وہ شکریہ اور مبارکباد کی مستحق ہیں

ہندوستان میں پیدا ہونے والے معروف انگریز مصنف جارج آرویل کی لکھی ہوئی کم از کم نو کتابوں میں سے ”اینیمل فارم“ وہ ناول تھا جو ان کی اولین پہچان بنا۔ ناول بھی کیا ہے قریب سو صفحات اور دس مختصر ابواب پر مشتعمل ایک کتاب ہے جو تیس ہزار الفاظ پر مشتعمل ہونے کی وجہ سے انگریزی میں نویلا ہی کہلاے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری سالوں میں برطانیہ میں لکھی گئی یہ کتاب اس وقت کی کمیونسٹ حکومت اور نظام پر ایک بھرپور وار ہے ایک ایسا موثر طنز کہ جسے پبلشر بھی شایع کرنے سے کنی کترانے لگے۔

 جنگ میں پراپگنڈہ کے لحاظ سے یہ کتاب کتنی پر اثر رہی اس کا اندازہ نہیں لیکن بیسویں صدی کے انگریزی ادب کو ایک شاھکار ضرور نصیب ہو گیا

ناول کی کہانی ایک فارم ہاؤس پر اٹھنے والے انقلاب سے ہے جس کی قیادت سور کر رہے ہیں۔ ایک بوڑھا سور مرنے سے پہلے سات نکات پر مشتمل ایک وصیت نما اعلامیہ جاری کرتا ہے جس کو بنیاد بنا کر جانور اپنے مالک یعنی انسان کو فارم ہاؤس سے نکال کر خود قابض ہو جاتے ہیں۔ ان سات نقات میں دو ٹانگوں والوں کو دشمن اور اپنے جیسے چار ٹانگوں والوں کو دوست قرار دیا جاتا ہے

کسی بھی جانور کے بستر میں سونے، شراب پینے اور کپڑے پہننے کی ممانعت ہو گی اور اپنے جیسے کسی بھی جانور کو مارنے پر پابندی ہو گی۔ ساتواں اور سب سے اہم نکتہ یہ کے تمام جانور برابر ہو گے۔ کہانی فارم ہاؤس پر جانوروں کا قبضہ ہونے کے بعد رفتہ رفتہ سوروں کی قیادت میں کتوں کی مدد سے جنھیں اسی مقصد کے لئے بطور خصوصی پروان چڑھایا جاتا ہے اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے اور مکمل قبضے کی روداد ہے۔ اس ضمن میں بیحد وفادار اور سخت کوش گھوڑے باکسر، حکم کی غلام بھیڑوں، دانا قسم کے گدھے بینجمین اور سمجھدار بکری موریل کے کردار اہم ہیں۔ ناول کی کہانی انسانوں کے خلاف گائے کے باڑے میں لڑی جانے والی جنگ، پون چکی کی تعمیر، مرغیوں کے انڈوں کی شکل میں بیرون دنیا سے تجارت کی بحالی، مخالفین کے قتل، شراب پینے کی صرف ایک طبقے کو اجازت اور رفتہ رفتہ سات بنیادی نقات سے مکمل انحراف کے دلچسپ واقعات پر مشتمل ہے

 کہانی کے اختتام تک سوروں کا فارم ہاؤس پر تسلط مستحکم ہو چکا ہوتا ہے اور وہ تمام انقلابی نظریات اور خاص طور پر سات نکات کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے۔

 سب سے آخری نکتے میں یہ ترمیم کر کے لاگو کر دی جاتی ہے کے تمام جانور مساوی ہیں لیکن کچھ جانور دوسروں سے زیادہ مساوی ہیں

عظیم ادب کی نشانی پوری کرتا ہوا یہ ناول قصہ پارینہ ہو جانے والے روسی انقلاب اور اشتراکیت سے آگے بڑھ کر زمان اور مکان کی قیدوں کو توڑتا ہوا موجودہ دور کے جمہوری اور سرمایا دارانہ نظام پر بھی پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں تو اس کا براہ راست اطلاق ہوتا ہے۔ ایک ایسا خوبصورت خطہ جس کو گزشتہ کئی سالوں میں مفاد پرستوں کے ٹولوں نے بھوکے جانوروں کی طرح نوچ نوچ کر پامال کیا گیا۔ یہی وہ جانور راج ہے جسے جارج آرویل نے ”اینیمل فارم“ میں بے نقاب کیا ہے اور جو آنے والے زمانوں تک  ہر اس استحصالی نظام کو بے آبرو کرتا رہے گا جس کی آبیاری ظلم پر کی گئی ہو

نوٹ : اینیمل فارم القا پبلیکشنز، ریڈنگز، گلبرگ لاہور سے نہایت ارزاں قیمت پر طلب کیا جا سکتا ہے

جانور راج: تبدیلی کا خواب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).