کھوئی ہوئی یادداشت اور جوتوں کے تلوے


خط کے لفافے پر ٹکٹ لگاتے لگاتے اُس کی یادداشت ختم ہوگئی اور اُسے سب کچھ بھول گیا حتٰی کہ یہ بھی کہ لفافے پر لگائے اِن دو ٹکٹوں کا کیا مطلب ہے۔ جیسے بلب جل رہا ہو، روشنی ہو اور یکایک اندھیرا چھا جائے۔ اُس نے لفافے کودیکھاپھر اپنے ہاتھوں کواُسے سمجھ نہ آئی کہ اُس کا یہاں آنے کا مقصد کیا تھا اور اٹھ کر کھڑکی تک آیا جہاں ڈاک خانے کا ملازم خط کے لفافوں پر مہریں لگا رہا تھا

” وہ بات سُنیں، یہ دیکھیں“ یہ کہہ کراُس نے خط کا لفافہ ملازم کے سامنے کرکے اُسے دکھایا۔

ملاز م نے خط کے لفافے کی جانب دیکھا اور کہا۔

” میں نے آپ کوتین ٹکٹ دیے تھے دو پندرہ روپے والے اور ایک دس روپے والا ٹکٹ آپ اس خط پر تینوں ٹکٹ لگائیں، تیسرا ٹکٹ آپ نے اب تک اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اسے بھی لفافے پرلگائیں، دوسرے شہر میں ڈاک چالیس روپے میں جاتی ہے۔ “

” چالیس روپے میں؟ “ اُس نے لفظ دہرائے اُسے بھول گیا تھا کہ چالیس روپے کتنے ہوتے ہیں اُس نے ہاتھ میں موجود ٹکٹ کی جانب دیکھا اور کہا

” یہ کتنے روپے کا ٹکٹ ہے؟ “

” جناب میں نے آپ کو ابھی تو بتایا ہے کہ یہ دس روپے کا ٹکٹ ہے اسے بھی خط کے لفافے پر لگادیں“

” جی اچھا، تو یہ دوسرے شہر پہنچ جائے گا؟ “ اُس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا

” جی ہاں، اب جلدی کریں، ٹکٹ لگا کر لفافہ مجھے دیں تاکہ تمام خط آج کی ڈاک سے روانہ کردیے جائیں“ اُس نے خط پر ٹکٹ لگا کراُس آدمی کے حوالے کیا اور پوسٹ آفس سے باہر نکل آیا، وہ بے حد پریشان تھا کہ اُس سے تمام ہندسے گُم ہوگئے تھے اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ دس، بیس، پچاس کیا اور کتنے ہیں، وہ یہاں کیوں آیا تھا اور اُس نے واپس کہاں جانا تھا۔

ایسا ایک دو بار پہلے بھی کچھ منٹ کے لیے اُس کے ساتھ ہوا تھاکہ وہ سب کچھ بھول گیا تھا لیکن اب کی باریہ دورانیہ کافی طویل ہوچکا تھا۔ پچھلی بارجب وہ رکشہ سے اُترا، کرایہ ادا کیا تو اُسے اندر سے کِدھر، کِدھر، کِدھر کی آواز آنے لگی۔ وہ تھوڑی دیر فٹ پاتھ پر کھڑاخود سے پوچھتا رہا کہ وہ کِدھر جارہا ہے، پھر جیب میں ہاتھ ڈال کرسارے کاغذ نکالے، گھر کے سودا سلف کی ایک لمبی فہرست، بجلی اور گیس کے بلز، بچوں کے سکول فیس کارڈز۔ اورپھراُسے سب یاد آ گیا تھا۔

لیکن اب اُسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔

”وہ آدمی گلی نمبر سات سے مین سڑک تک آٹھ کلومیٹر روزانہ پیدل کیوں جاتا ہے؟ “

کیوں کہ وہ پیسے بچانا چاہتاہے، اُس کے پاؤں میں چھالے پڑجاتے ہیں جس کے لیے وہ رات پاؤں گرم پانی میں تھوڑی دیررکھتاہے اور اپنے بیوی بچوں کی جانب دیکھتا رہتاہے جواُس سے خوش نہیں رہتے کیونکہ وہ اُن کی خواہشات پوری نہیں کرپاتا لیکن وہ چاہتاہے کہ وہ اُنہیں خوش رکھے سو وہ پیدل چلتاہے۔ چوتھا سال ہے اُس کی ترقی نہیں ہورہی لیکن اُس کا کنبہ لگاتار بڑھ رہا ہے۔ اُس کی بیوی اُس سے روزجھگڑتی ہے، وہ شادی سے پہلے بھی غریب تھی اور شادی کے بعد بھی غریب ہے۔

وہ اُسے خوش رکھنے کے لیے روپے بچاتا ہے دوپہر کا کھانا یہ کہہ کر نہیں کھاتا کہ وزن کم کرنا ہے حالانکہ اُس کا وزن لگاتار کم ہورہا ہے جیسے اُس کے سر کے بال کم ہورہے ہیں لیکن وہ شیشے کے آگے بہت تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرتاہے سو اُسے نہیں معلوم کہ اُس کے سرکے بال کتنے کم رہ گئے ہیں، مہینے میں ایک بار ٹائی باندھتا ہے اور اُس کی گرہ پھر نہیں کھولتا، اُس کی بیوی دیر سے جاگتی ہے سوناشتہ بنانا اور کپڑے استری کرنا اُس کا کام ہے اور وہ اکثر یہ دونوں کام نہیں کرتاکیونکہ اُسے دیر ہوجاتی ہے اور اُس نے گلی نمبر سات سے مین سڑک تک آٹھ کلومیٹرچلنا ہوتاہے اِس سے وہ پورے پندرہ روپے بچالیتاہے، پندرہ روپے جس سے دودھ کا چھوٹاپیکٹ آجاتاہے۔

پانچویں بچے کی پیدائش آپریشن سے ہوئی جس کے لیے اُسے قرض لینا پڑا اب وہ تنخواہ سے تین ہزار روپے قسط ادا کرتا ہے جو پچھلے دو ماہ سے نہیں دے سکاآج کل وہ گلی کے سامنے کی طرف سے اندر داخل نہیں ہوتا کہ دکاندار کو بھی تین ماہ سے سودا سلف کے پیسے نہیں دے سکا کیوں کہ بچوں کی فیس بڑھ چکی ہے، اُن کی کاپیاں، کتابیں، بیگ اور یونیفارم لینے کے بعد اُس کے پاس بہت کم روپے باقی بچے تھے۔ اُس کا خیال تھا کہ شاید اِس سال اُس کی تنخواہ بڑھ جائے توحالات بہتر ہوجائیں لیکن پھر یہ دن آیا کہ اُس کی یادداشت گُم ہوگئی۔

وہ سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اُسے اب کہاں جانا چاہیے وہ یقیناًکہیں سے آیا تھا لیکن اب چند ہی لمحوں میں اُس کی یاداشت گُم ہوگئی تھی اب تمام راستے اُس کے اپنے تھے جو کہیں بھی نہیں جاتے تھے اور اُس کے پاؤں میں شدیددرد تھا۔

سڑک کنارے کھڑا وہ ذہن پر دباؤ ڈال کر سوچ رہا تھا کہ وہ کون ہے کہ ایک رکشہ اُس کے پاس رکتا ہے

” بابو چلنا ہے؟ “ رکشے والے نے پوچھا

” جی جی بالکل، میں نے گھر جانا ہے“ اُس نے کہا

” لے چلتے ہیں جی، آپ کا گھرکہاں پر ہے؟ “ رکشے والے نے پوچھا

” معلوم نہیں، مجھے پہلے تو پتا تھا ابھی مجھ سے گھر گُم گیا ہے“

” کوئی نشانی؟ “

” ایک گلی ہے، جس میں نیلے رنگ کا گیٹ ہے“

” گلیاں تو لاکھوں ہیں اور نیلے گیٹ بھی ہزاروں ہیں“

” گلی اورگھر کا نمبر بتائیں“

” نمبر؟ “

” جی نمبر“

اُس نے ذہن پر بہت زور دیا لیکن اُسے کوئی نمبر یاد نہ آ سکا

” آہ افسوس مجھے کوئی نمبر یاد نہیں“ اُس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا

”آپ اب کہاں جائیں گے؟ “ رکشے والے نے پوچھا

” گھر جاؤں گا جو مجھے نہیں معلوم کہاں ہے“

” یہیں کہیں ڈھونڈیں شاید مل جائے“ یہ کہہ کر رکشے والا چلا گیا

وہ سڑک کنارے حیران و پریشان کھڑا تھا اُسے کچھ بھی یاد نہیں تھا

” اب میں کہاں جاؤں“ دکھ کی شدید لہر اُس کے اندر سے اُٹھی اور وہ رونے لگاپاس گزرتے ایک آدمی نے اُسے روتا دیکھ کر پوچھا۔ ”جناب خیریت؟ آپ رو کیوں رہے ہیں، کوئی مسئلہ ہے؟ “

” جی مجھ سے گھر گُم گیاہے“ اُس نے روتے ہوئے کہا

” گھر گم گیا ہے کیا مطلب، آپ ایڈریس بتائیں میں آپ کی مددکرتا ہوں“

” ایڈریس ہی گُم گیا ہے“ اُس نے روتے ہوئے بتایا

” کوئی مسئلہ نہیں کیا آپ اس شہر میں نئے آئے ہیں؟ کسی دوست رشتہ دار کو فون کرلیں“ اُس آدمی نے کہا اور چل دیا۔

اُس نے موبائل نکالا، سارے نمبر اُسے ایک سے دکھائی دینے لگے وہ پریشانی کے عالم میں سڑک کنارے چلنے لگا۔

ایک اور رکشے والا رک کرکہتاہے۔

” بیٹھیں جی، آ پ یقینامین سڑک کی طرف جاناچاہتے ہیں تو پچاس روپے دیں، چھوڑ آتا ہوں، اِس گرمی میں پیدل چلنا بہت مشکل ہے“

” پچاس روپے؟ “ اُس نے حیرت سے پوچھا

” ہاں پچاس کچھ زیادہ نہیں چلیں آپ چالیس دے دیجیے گا“ رکشے والے نے کہا

” چالیس؟ “ اُس نے لفظ دہرائے

” کیایہ بھی زیادہ ہیں؟ “

” چالیس کتنے ہوتے ہیں؟ “ اُس نے پوچھا

” چالیس چالیس ہوتے ہیں جی اور کتنے ہوتے ہیں“

اُس نے ذہن پر زور دیا لیکن اُسے گنتی مکمل بھول چکی تھی اُس نے گلی میں دوڑ لگادی

رکشے والا اُسے آوازیں دیتا رہا۔ ”تیس دے دیں جناب“

لیکن وہ بھاگتارہا، بھاگتا رہا، معلوم نہیں وہ کتنا عرصہ دوڑتا رہا اگرچہ کہ اُس کے پاؤں میں شدید دردتھا، لیکن وہ نہیں رکاحتٰی کہ نیلے دروازے والے اپنے گھر پہنچ گیاکہ جس کا رنگ اب اُکھڑچکاتھا۔

اُس کی بیوی نے اُسے دیکھتے ہی کہا ”اتنی دیر کہاں لگا دی، ایک خط ہی تو پوسٹ کرنا تھا، کتنے روپے خرچ ہوئے ہیں؟ “

” معلوم نہیں“ اُس نے بتایا

” کیا مطلب، معلوم نہیں ایک تو تم روپے پیسے کا بالکل حساب نہیں رکھتے۔ بجلی کا بِل معلوم ہے اس دفعہ پورے تین ہزار آیا ہے اور بچوں کی فیس کے بھی پانچ ہزار دینے ہیں اور تمہاری تنخواہ ہے کہ آنہیں رہی، اچھا ابھی تمہارے پاس کتنے روپے ہیں میں نے شاپنگ کرنے جانا ہے“

اُس نے جیب سے بٹوا نکالا نوٹوں کو دیکھا لیکن اُسے گنتی بھول چکی تھی، اُس نے گھبرا کر بٹوا بیگم کو دے دیا۔

اُس کی بیوی نے بٹوا اُس کے ہاتھ سے لیا نوٹوں کو گنا اور کہا

” بس پندرہ سو روپے؟ اِس سے بھلا کیا شاپنگ ہوگی۔ منصور صاحب کودیکھو تمہارے ہی دفتر میں کام کرتے ہیں اُنہوں نے نیا گھر بنا لیا ہے اور ایک تم ہو جیب میں پندرہ سوروپے لے کر پھرتے ہو، تم سے شادی کرکے میری تو زندگی عذاب ہوگئی ہے، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترس گئی ہوں اور اِن بچوں کی بھی کوئی خواہش پوری نہ ہوگی“

اُس نے دکھ سے اپنے بچوں کی جانب دیکھا وہ انہیں بتانا چاہتا تھا کہ اُس کی یادداشت ختم ہوچکی ہے اوراُس کے پاؤں میں شدید دردہے ہوسکتا ہے اب گرم پانی میں رکھنے سے بھی آرام نہ آئے، لیکن اُس کے بچوں نے نفرت سے منہ پھیر لیا اور گھر سے باہر نکل گئے۔

اُس کی بیوی لگاتار چلا رہی تھی کہ جس کی باتیں اُسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھیں وہ گنتی سے آزاد ہو چکا تھا اُس نے کہا

” پندرہ سو کم ہوتے ہیں؟ “

” نہیں نہیں بہت زیادہ ہوتے ہیں، محل بن سکتا ہے اِن سے“

”زیادہ کتنے ہوتے ہیں؟ “

”زیادہ جتنے مرضی ہوں کم ہیں“

وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، ٹانگیں سیدھی کیں، چہرے کو ہاتھوں میں چھپایا اور رونے لگا۔

”تمہیں کیا ہوگیا ہے یہ تم رو کیوں رہے ہو؟ “ اُس کی بیوی نے حیرت سے اُس کی جانب دیکھ کر پوچھاکہ اچانک اُس کی بیوی کی نظر اُس کے جوتوں پر پڑی تو اُس نے کہا

” آپ کے جوتوں کے تو تلوے ہی نہیں ہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).