جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کی سماعت: ’شکر کریں کہ آپ محفوظ ہیں’


سپریم کورٹ

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کے روز احتساب عدالت کے جج سے متعلق دائر کی گئی تین درخواستوں کی سماعت کی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر اس موقع پر مریم نواز کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تو یہ مان لیا جائے گا کہ سپریم کورٹ نے اس ویڈیو سے متعلق احتساب عدالت کے جج کا بیانِ حلفی تسلیم کرلیا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کے روز احتساب عدالت کے جج سے متعلق دائر کی گئی تین درخواستوں کی سماعت کی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جج کے بیانِ حلفی کو بڑی احتیاط سے دیکھنا ہوگا۔

درخواست گزار محمد اشتیاق اور محمد سہیل کے وکلا کے دلائل احتساب عدالت کے جج کے بیان حلفی کی حمایت میں جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے سے متعلق تھے۔

بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری ہونی تو ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ویڈیو کے حقیقت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ احتساب عدالت کے جج کے رویے اور عدلیہ کی ساکھ کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی پر انگلیاں اُٹھنا شروع ہوگئیں تو پھر لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اس معاملے میں کس حد تک جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو سے متعلق بہت سے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جس میں کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے قانون کے علاوہ سائبر کرائم اور پھر توہینِ عدالت کے قوانین بھی شامل ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کو اس بارے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کس حد تک اس میں مداخلت کرسکتی ہے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں دیے گئے فیصلے پر تو اثر انداز نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ میاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

ایک درخواست گزار طارق اسد نے بینچ سے استدعا کی کہ اس واقعہ کی تحقیقات کےلیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی ریٹائرڈ جج اس کمیشن کی سربراہی کرے تو اُنھیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

درخواست گزار نے الزام عائد کیا کہ عدالتی معاملات میں ’کچھ ادارے ملوث ہیں’ جس پر بینچ کے سربراہ نے ان سے پوچھا کہ پہلے آپ نے اداروں کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔

اس پر طارق اسد کا کہنا تھا کہ اگر وہ پہلے اس کی نشاندہی کرتے تو اُنھیں خطرہ تھا کہ رجسٹرار آفس سے ہی ان کی درخواست پر اعتراض لگا کر اسے واپس کردیا جاتا۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف تو آپ اپنی درخواست میں کہتے ہیں کہ ادارے اپنے مفاد کے لیے عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں لہٰذا سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے جبکہ دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو سکینڈل کے معاملے میں اداروں کو مداخلت کرنی چاہیے۔’

چیف جسٹس نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کون سے ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں تو طارق اسد نے برملا کہا کہ “سر، آئی ایس آئی۔”

درخواست گزار نے بینچ کے سربراہ کو بتایا کہ آج کل تو آئی ایس آئی کے اہلکار ان کے بارے میں روزانہ دو مرتبہ معلومات حاصل کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’شکر کریں کہ آپ محفوظ ہیں’ جس پر کمرہءِ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔

درخواست گزار نے کہا کہ آج کل تو ہر ٹی وی چینل پر احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو پر تبصرہ ہو رہا ہوتا ہے اور میرے گھر میں یہ پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر وہ کمرے سے باہر نکل جاتے جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کمرہ چھوڑنے کے بجائے ٹی وی کا سوئچ آف کردیا کریں۔’

چیف جسٹس کے اس ریمارکس پر ایک زوردار قہقہ بلند ہوا اور بینچ میں شامل دیگر دو جج صاحبان بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔

احتساب عدالت کے جج کی اس مبینہ ویڈیو سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران دو ایسے جج صاحبان بھی موجود تھے جنہوں نے پاناما لیکس کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ ان میں چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید شامل ہیں۔

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں ایک تاثر یہ تھا کہ شاید کوئی جج ان درخواستوں کی سماعت کرنے سے خود کو الگ کردے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو مبینہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 23 جولائی کو تجاویز طلب کرلی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp