کیا آپ کی اردو افسانے سے دوستی ہے؟ 


خواتین و حضرات! میں سب سے پہلے منیر سامی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی ادبی محفل میں مجھے بلایا اور اردو افسانے کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی۔ اس سے پہلے کہ فنِ افسانہ نگاری کے بارے میں کچھ سنجیدہ باتیں کروں میں آپ سے ایک مذاہیہ بات شیر کرنا چاہتا ہوں۔

ایک طالب علم نے ایک دانشور سے پوچھا ’آپ کی نگاہ میں ایک اچھے افسانے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ ‘
دانشور نے کہا ’تھوڑی سا مذہب۔ تھوڑی سی جنس۔ اور تھوڑا سا سسپنس‘
طالب علم نے کہا ’اس تعریف کی بنیاد پر مختصر ترین افسانہ کیا ہوگا؟ ‘
دانشور نے کہا ’وہ افسانہ تین جملوں پر مشتمل ہوگا

THERE WAS A NUN

SHE GOT PREGNANT

GOD KNOWS BY WHOM

میری نگاہ میں کامیاب افسانہ لکھنا غزل ’نظم‘ مقالہ حتیٰ کہ ناولٹ لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اسی لیے بہت کم ادیب اس فن میں کمال حاصل کر سکے ہیں۔ یہ ادب کے پلِ صراط پر چلنے کی طرح ہے۔ اگر ایک قدم غلط اٹھایا اور ایک پیرا گراف اضافی لکھا تو افسانہ بلندی سے پستی میں گر جاتا ہے۔ مشہور اور ہر دل عزیز امریکی رسالے نیویارکر کے فکشن کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ وہ افسانے کے آخری چند جملے کاٹ دیتا ہے کیونکہ وہاں افسانہ ختم ہو چکا ہوتا ہے لیکن ادیب اپنی تخلیقی غیر اعتمادی کی وجہ سے چند جملے اضافی لکھ دیتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کہتے تھے کہ افسانہ ایک طویل نثری نظم ہے جس میں ایک جملہ بھی اضافی نہیں ہونا چاہیے۔

اردو افسانے نے ایک صدی میں روایتی افسانے سے جدید افسانے کا سفر طے کیا ہے۔ پریم چند روایتی افسانے لکھتے تھے جن میں چند کردار ہوتے تھے۔ ایک پلاٹ ہوتا تھا۔ کہانی کی ابتدا اور انتہا ہوتی تھی اور کہانی کا اختتام ایک پنچ لائن پر ہوتا تھا جو قاری کو حیران بھی اور زندگی کے کسی خاص موضوع پر سوچنے پر مجبور بھی کرتا تھا۔ کافکا کہتا تھا کہ کامیاب افسانہ وہ ہے جو قاری کو اسے دوبارہ پڑھنے کی تحریک دے۔

اردو کا روایتی افسانہ منٹو کے دور میں اپنی معراج کو پہنچا۔ منٹو نے فنِ افسانہ نگاری پر کمال حاصل کیا تھا۔ اس کے افسانے۔ بو۔ ٹھنڈا گوشت۔ کھول دو۔ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ کیونکہ منٹو نے طوائف اور جنس کے حوالے سے افسانے لکھے اس لیے وہ ہندوستان اور پاکستان کے روایتی اور مذہبی ماحول میں نہ صرف بدنام ہوا بلکہ اس پر عصمت چغتائی کی طرح مقدمے بھی چلے۔ بہت کم لوگ یہ سمجھ پائے کہ منٹو کا موضوع طوائف سے زیادہ انسانی اور نسوانی نفسیات تھا۔ اسی لیے منٹو کہتا تھا۔ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔

سلمان رشدی نے اپنے نیویارکر کے مضمون میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی میں ہندوستان اور پاکستان کی تمام زبانوں کا سب سے بڑا افسانہ نگارسعادت حسن منٹو ہے۔

اردو افسانے کی بیسویں صدی کی تاریخ میں دو تحریکوں نے فعال کردار ادا کیا۔ ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی تحریک۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے غریبوں۔ کسانوں اور مزدوروں پر افسانے لکھے اور روس کی سوشل ریلیزم کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ جدیدیت کے علمبرداروں میں انور سجاد۔ رشید امجد۔ انتظار حسین اور منشا یاد جیسے افسانہ نگار شامل ہیں جنہوں نے اردو افسانے کے فورم کے ساتھ تخلیقی تجربے کیے انہوں نے روایتی افسانے کے اجزائے ترکیبی سے کھیلا۔

کبھی کردار کے بغیر ’کبھی پلاٹ کے بغیر اور کبھی پنچ لائن کے بغیر افسانہ لکھنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے چند جدید افسانے کہانی سے زیادہ نثری نظم کے قریب آ گئے۔ ان تجربات نے جہاں اردو افسانے میں تجریدیت کے رنگ بھرے وہیں ابلاغ کے مسائل بھی کھڑے کیے اور اردو افسانے کا قاری جو افسانے میں کہانی کے مزے لیتا تھا قدرے مایوس ہوا اور اردو افسانے کے قاریوں میں کمی آئی۔ پچھلی چند دہائیوں میں اردو افسانے میں کہانی دوبارہ داخل ہو رہی ہے۔ میرا ایک شعر

؎ بڑھاپے میں دبے پاؤں جوانی لوٹ آئی ہے

کہ جیسے اب فسانے میں کہانی لوٹ آئی ہے

مختصر افسانے میں ادیب زندگی کے ایک خاص پہلو پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور زندگی کے ایک پوشیدہ راز کو منکشف کرتا ہے۔

بعض افسانہ نگاروں کی تخلیقی کاوشوں کی وجہ سے اردو کا افسانہ مغربی حسیناؤں کے لباس کی طرح مختصر ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ افسانچہ بن گیا۔ اردو ادب میں جوگندر پال نے چند نہایت خوبصورت افسانچے لکھے ہیں۔ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ان کا پہاڑوں کے بارے میں دو افسانچے حاضر ہیں

پہلا افسانچہ۔

پہاڑوں میں ایک پگڈنڈی پر سے اترتے ہوئے وہ رگ گیا او سر جھکا کر دیکھنے لگا کہ اوپر کے مانند نیچے بھی پہاڑ ہی پہاڑ ہیں اور وہ اتر اتر کر دراصل چوٹیوں پر پہنچ رہا ہے۔

دوسرا افسانچہ۔

ادھر دیکھو وہ پہاڑ اپنے اس خیال پر پانی پانی ہو رہا ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے ورنہ اپنی گود میں بسے لوگوں کے دکھ کا مداوا کرتا۔ دیکھو سوچ سوچ کر اس کی چوٹی پر برف پگھلنے لگی ہے اور نشیب پر جا بجا کئی جھرنے بہہ نکلے ہیں۔ ہاں بھئی پہاڑ اگر شرمندہ بھی ہوتے رہیں تو دھرتی سیراب ہو جاتی ہے۔

جوگندر پال کے افسانچے ہمیں خلیل جبران کی یاد دلاتے ہیں۔ خلیل جبران کا ایک مختصر ترین افسانہ ہے

ایک عورت دو مردوں کے درمیان بیٹھی تھی

اس کا ایک رخسار زرد تھا

اور دوسرا سرخ

اردو افسانے نے ایک صدی میں اتنی ترقی کی ہے کہ اس کے نمائندہ افسانے عالمی ادب کے چنیدہ افسانوں کی اینتھالوجی میں بڑے فخر سے پیش کیے جا سکتے ہیں۔

میں نے بھی زندگی میں اردو افسانے سے دوستی کی ہے جہاں میں نے سینکٹروں افسانے پڑھے ہیں وہیں چند درجن افسانے تخلیق بھی کیے ہیں جو میرے افسانوں کے مجموعوں۔ زندگی میں خلا۔ دو کشتیوں میں سوار۔ اور دھرتی ماں اداس ہے۔ میں شامل ہیں۔ مجھے اس دن بہت مسرت ہوئی جب کینیڈا کے ہائی سکول کی عالمی ادب کی اینتھالوجی GLOBAL SAFARI میں میرا افسانہ ISLAND شامل کیا گیا۔

اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔ امید ہے اب آپ اردو افسانے سے دوستی کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو نا امیدی نہیں ہوگی بلکہ آپکی زندگی میں اس دوستی سے دانائی کا اضافہ ہوگا۔ شکریہ۔ (یہ مضمون ٹورانٹو کی ایک ادبی محفل میں پڑھا گیا)

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail