قرآن فہمی اورجدید سائنسی نظریات ( 2 )


آج کی تحریر میں یہ جائزہ لیاجائے گا کہ سائنس کیا ہے اور کیا سائنسی نظریات قرآن فہمی میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ ڈاکٹر ذاکر نائک اوربہت سے دوسرے مفکرین تو سائنسی نظریات کو کھلم کھلا قرآن کا مفہوم جاننے اور سمجھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ حضرات ایسے ہیں جو مائنس اور فلسفہ سائنس کی گہرائیوں سے واقف ہیں۔ وہ قرآن فہمی کے لئے سائنسی منہاج کو فائدہ مند تسلیم نہیں کرتے۔ اس فریق کے موقف کو سمجھنے سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ دراصل سائنس ہے کیا؟

اس سوال کے جواب کے لئے ہم مسلم جدیدیت پسندوں کی بجائے مغرب کے ان سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خیالات کو دیکھیں گے جو اس شعبہ کی اساسیات سے واقف ہیں۔ سائنس جن کے علم وتجربے، رویے اور تہذیب وتاریخ کا رواں دواں حصہ ہے۔ بڑے سائنس دان کہتے ہیں کہ سائنس کبھی، قطعی، حتمی اور حقیقی علم مہیانہیں کرتی وہ کسی جزو کا بھی جزوی علم دیتی ہے۔ سائنس دان کائنات کو ایک کل یا وحدت میں نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس صلاحیت سے قاصر ہیں۔

اس کائنات کو مختلف حصوں، خانوں، اجزاء، اورٹکٹروں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں۔ لہذا سائنس دان کل کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ فائین مین جیسا دورجدید کا بڑا سائنسدان کہتا ہے۔ ”اس جزوی علم پر جو کسی ایک جزو کے بھی نہایت جزوی حصے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی بنیاد پر انسانی فطرت اور کائنات کو پہچاننے کا دعویٰ کرنا ایک لغو دعویٰ ہے“ سائنس کا سفر، قیاس، گمان، مفروضات اور اندازوں کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔

کوئی سائنس دان سائنسی نتائج کو حتمی اور قطعی تسلیم نہیں کرتا۔ کوانٹم میکانکس جو سائنس کی دنیا میں علم کے سیل رواں کا نیا دروازہ ہے۔ جس کے بارے عمومی رائے یہی ہے کہ یہ نظریہ سائنس کے ہرمسٔلے، ہرمشکل کوبیان کرنے اور اصول وقوانین وضع کرنے کی غیر معلمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے معاملات میں اور سائنسی امور میں یہ رہنمائی کرنے سے قاصر ہے۔ اس قانون کی موجودگی کے باوجود بہت سے امور، اندازے، قیاس اور گمان پر طے کیے جاتے ہیں۔

کسی سائنس دان کو یہ معلوم نہیں کہ جو ہر (Atom) کے مرکز میں کیا عمل اور رد عمل ہورہا ہے۔ اور اس کی حرکیات کیا ہیں؟ ابھی تک مرکزہ کے اندر کی تفصیلات اندازوں پر مشتمل ہیں۔ مرکزہ (Nucleus) کے اندر کچھ سال پہلے تک الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران موجود ہوتے تھے۔ لیکن اب کہا جارہا ہے کہ ایک نیا پارٹیکل فوٹون بھی موجود ہے۔ کل کلان تحقیقات کے بعد کسی اورذرے کا بھی اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ سائنسدان تمام سائنسی نظریات تجربات کے بعد قائم نہیں کرتے۔

بہت سے سائنسی نظریات، قیاس، گمان، وجدان، اور اندازے پر قائم کیے جاتے ہیں۔ سائنس مشاہدات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے لیکن آگے بڑھنے کے باوجود سائنس یہ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ”Wheather it is right or wrong but we know that it is a little wrong or at least incomplete“ یہ الفاظ اس صدی کے آئن سٹائن نوبل انعام یافتہ سائنسدان فائن مین کے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ 2 ہزار سال تک ارسطو کے تراشیدہ یونانی سائنس کے نظریے زمین وزماں اور مکان کی حرکت سے متعلق مستعمل ومسلط رہے۔

پوری دنیا کے علمی حلقوں بشمول مذہب، سائنس اور فلسفے کا اس پر اجماع رہا۔ تب تک زمین ساکن اور سورج وچاند گردش میں تھے۔ لیکن پھر کوپرنیکس، گیلی لیو اور نیوٹن کے آتے آتے حرکت وزمان کے متعلق تمام نظریات بدل گئے۔ کوپرنیکس اور گیلی لیو دونوں کو عیسائی پادریوں نے پھانسی تو دے دی۔ لیکن وہ پھانسی پر چڑھنے سے پہلے کہہ گئے تھے۔ کہ ہماری پھانسی کے باوجود زمین سورج کے گرد کروی شکل میں حرکت کرتی رہے گی۔ گیلی لیو نے کیپلر سے ملکر ایک دوربین بھی بنالی تھی۔

وہ عیسائی فادرز کو دوربین کے ذریعے زمین اور چاند کی حرکات کو دکھانا چاہتاتھا۔ لیکن پادری جنہوں نے غلطی سے یونانی سائنس اور فلسفے کو اپنے مذہب کا حصہ بنالیاتھا۔ وہ اس کی دوربین کے قریب آکر مشاہدہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ گیلی لیو کی پھانسی کی معافی صدیوں بعد رومی پوپ نے 1983 ء میں آکر مانگی۔ نیوٹن کے قوانین حرکت نے 2۔ ہزار سال کی تاریخ بدل دی۔ لیکن صرف 2 سوسال بعد آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے نیوٹن کے قوانین کو غلط ثابت کردیا۔

نظریہ اضافیت کئی سال تک دنیا پر حکمرانی کرتارہا۔ لیکن 1920 ء کے بعد کوانٹم میکانکس کے نظریات پھیلنا شروع ہوئے اور آئن سٹائن کے آخری زمانے تک اس کی ترتیب دی ہوئی اپنی معروف مساواتE=mc 2 پر سوالات اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ کوئی زمانہ تھاکہ اسے خدائی مساوات کہاجاتاتھا۔ لیکن ذراتی طبیعات نے آکر ماضی کے نظریات کو غلط ثابت کردیا۔ پہلے زمان ومکان کے نظریے کی اہمیت تھی بعد میں اس میں ثقل کی قوت بھی شامل کرلی گئی۔

دوستوہم دیکھتے ہیں کہ سائنس ہر وقت بدلتی رہتی ہے۔ اکثر کہاجاتا ہے کہ سائنس کا علم معروضی ہے۔ سائنسی علم کے بارے ایک مفروضہ یہ تھا کہ اس عظیم مشاہداتی علم کا ادراک جو تجربے کے ذریعے سے حاصل ہوتاہے۔ انہی حالات، اسباب اور شرائط کے ساتھ کسی بھی سائنسی تجربے کو دنیابھر میں ہرجگہ کوئی بھی شخص بلالحاظ نسل، زبان اورر نگ دھرا سکتاہے۔ اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کسی دوسرے علاقے میں ہونے والے تجربے جیسے ہی ہوں گے۔

لیکن فائن مین کہتا ہے ”This is simply not true، it is not a fundamatal condition of science۔ “ جرمنی کے بڑے فلاسفر کانٹ نے اپنی کتاب ”تنقید عقل محض“ میں عقل اور طبیعات کی حدود واضح کردی تھیں۔ کہ محدود عقل لامحدود کائنات اور ماورائے عقل امورکو نہیں پاسکتی۔ جہاں عقل کا دائرہ ختم ہوگیا اس دائرے سے باہر کے امورمیں عقل عاجز، درماندہ، پسماندہ اور ناکارہ ہے۔ محدود عقل کے تجربات اور محدود مشاہدات سے اخذ کردہ نتائج بھی محدود پیمانے پر درست ہوسکتے ہیں۔

سورج اور چاند کو صدیوں سے گردش کرتاہوا دیکھ کر قدیم سائنس ہمیں بتاتی رہی کہ زمین ساکن اور سورج گردش میں ہے۔ اس نظریے کو کوپرنیکس نے آکر معرض سوال بنایا۔ اور گیلی لیو نے آکر اسے مکمل طورپر ردکردیا۔ جدیدیت پسند مفکرین کی یہ بھی رائے ہے کہ سائنس نفس کو موضوع بناتی ہے۔ نفس سائنس کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ کیونکہ اسے تجربہ گاہ میں جانچا نہیں جاسکتا۔ وہ سائنس جو زندگی سے ایک آدھ ٹکڑا نوچ سکتی ہے۔ کُل کا علم نہیں رکھتی۔

جب ایک کُل کو اجزاء میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ تو وہ اپنی روح، طاقت، حقیقت اور جوہر کھودیتا ہے۔ وہ کچھ اور ہوجاتا ہے۔ سائنسی طریقہ علم سے مذہب کی تردید وتوثیق کاکام لیناغیر علمی رویہ ہے۔ اگر کوئی علم سائنسی بنیادوں پر ثابت نہ ہوسکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ علم نہیں ہے۔ فائن مین جیسے بڑے سائنس دان نے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو چیز سائنس سے ثابت نہ ہو وہ چیز بری ہو اور اس کا وجود ہی نہ ہو۔ محبت بھی سائنس سے تو ثابت نہیں ہوتی۔

لیکن ہرکوئی اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کرتا رہتا ہے اور اپنی زندگیوں میں سکون لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ قرآن مجید کی تفہیم میں سائنس جیسی بدلتی، غیر قطعی اور غیر حتمی شے کو استعمال نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ یہ بات کہ سائنسی نظریات کچھ عرصے کے بعد بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی اوپر کئی مثالیں دی گئی ہیں۔ فلکیات سے متعلق ایک مثال بالکل جدید ہے۔ صدیوں سے یہ سمجھا جاتارہا ہے کہ سورج کے گرد 9۔ سیارے گردش میں ہیں۔ لیکن 2007 ء میں ناسا نے یہ اعلان کردیا کہPlutoنامی سیارہ موجود نہیں۔

یوں سیاریوں کی تعداد 8۔ رہ گئی۔ اس کے بعد 2013 ء میں اعلان کیاگیا کہ سورج کے گرد 5 مزید سیارے گردش میں ہیں اس طرح اب موجود سیاروں کی تعداد 13۔ ہوگئی۔ اس سے آپ بدلتے ہوئے سائنسی نظریات کو واضح طورپر جان سکتے ہیں۔ قرآن اللہتعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی وحی ہے۔ اکثر سائنسی ماہرین کے نزدیک اللہ اور وحی بے معنی الفاظ ہیں۔ پھرقرآن کے تصورات زندگی بعدموت، جنت ودوزخ، عذاب قبر، اور بے شمار دیگرتصورات۔ عقل یعنی سائنسی علوم سے ثابت نہیں کیے جاسکتے۔

قرآن نہ سائنسی کتا ب ہے۔ اور نہ ہی اسے سائنسی نظریات سے سمجھتے کی کوشش کوئی بہتر کوشش شمار ہوسکتی ہے۔ قرآن کو شروع میں ہی صحابہ کرام نے نقل کرلیاتھا اور یہی نقل آگے سے آگے منتقل ہوتی آرہی ہے۔ قرآن مجید کو صحابہ کرام نے بنی اکرم ﷺ سے سمجھا اور پھر ان سے تابعین نے اور یوں بات آگے چلتی رہی۔ آج کل اس طریقہ کو تفسیر ماثور کا طریقہ کیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک اور دوسرے جدید مفکرین کو بھی صحابہ کرام اور تابعین کے طریقے پر قائم رہنا چاہیے۔ بدلتے ہوئے اور ارتقاء پزیر سائنسی نظریات کو قرآن فہمی سے دور ہی رکھنا بہتر ہے۔ میں نے دو قسطوں میں دونوں نقطہ ہائے نظربیان کردیئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).