پاک امریکا تعلقات اور وزیراعظم کا متوقع دورہ امریکا


وزیر اعظم کے متوقع دورہ امریکا کی تاریخ کا تعیین ہونے سے قطع نظر ہماری خارجہ پالیسی کے بارے میں چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔

اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں امریکا نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے خاصی امداد دی تھی۔ لیکن اس مدد کے بدلے میں ہم نے کوئی کم قیمت بھی نہیں چکائی ہے۔

انیس سو پچاس کے عشرے میں جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی تو اکثر نو آزاد شدہ ممالک کوامریکا اور سویت یونین اپنی اپنی طرف کھینچنے میں مصروف تھے۔ کچھ ملکوں نے غیر جانب دار راستہ اپنایا جب کہ زیادہ تر کسی ایک سپر پاور کی طرف ہو گیے۔

بھارت نے جواہر لال نہرو کی قیادت میں غیر جانب دار تحریک کی بنیاد رکھی مگر اس کا جھکاؤ سویت یونین کی طرف رہا۔ دوسری طرف پاکستان امریکا کا حامی بن کر سیٹو اور سینٹو میں شامل ہو گیا جس کو پہلے بغداد پیکٹ کہتے تھے۔

جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے فوجی آمر بن کر خود کو مکمل طور پر امریکا کے حوالے کر دیا۔ جنرل ایوب خان کو یہ سمجھنے میں آٹھ سال لگے کہ پاکستان کو آقاوں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت تھی۔

پھر انیس سو ساٹھ کے عشرے میں بھی امریکا نے پاکستان کی معاشی ترقی، صنعت کاری اور مجموعی مالیاتی استحکام کے لیے مدد دی۔ لیکن جب انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو پاکستان کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکا کی یہ ”غداری“ یا بے وفائی جنرل ایوب خان کو پسند نہ آئی اور وہ اب چین اور سویت یونین کی طرف دیکھنے لگے۔

انیس سو ساٹھ کے عشرے کے اواخر تک جنرل ایوب خان کی مقامی اور بین الاقوامی دونوں ساکھ ختم ہو چکی تھیں۔ اور اب ایک اور فوجی آمر جنرل یحیی خان نے اپنے صدر کو مجبور کر دیا کہ وہ استعفی دے دیں۔

انیس سو ستر کے عشرے کے اوائل میں پاک امریکا تعلقات اچھے نہیں رہے کیوں کہ ایک طرف تو پاکستان کے مشرقی بازو میں فوجی کا رروائی جاری تھی اور دوسری طرف انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد جنرل یحیی خان نے منتخب نمایندوں کو اقتدار ددینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں امریکا غیر جانب دار رہا۔

اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہوکر بنگلا دیش بن گیا اور مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو بر سر اقتدار آ گیے۔ بھٹو کا اسلامی سوشلزم امریکا کے لیے پسندیدہ نہیں تھا اور پھر بھٹو کی ایٹم بم کی تیاری بھی امریکا کو کھٹکتی تھی۔ انیس سو ستر کے عشرے کے اواخر تک بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر پھانسی پر لٹکا یا جا چکا تھا۔

بھٹو نے اپنی برطرفی کو ایک بین ا لاقوامی سازش کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ پاکستان کے نیے غاصب حکمران جنرل ضیا ا لحق امریکا کے محبوب بن گیے کیوں کہ انہوں نے افغانستان میں سویت قبضے کے بعد امریکا کا ساتھ دینا منظور کیا تھا۔ جنرل ضیا نے اس مداخلت کا بھرپور فائدہ اٹھا یا اور اپنے اقتدار کہ طول دیتے رہے۔

جنرل ضیا الحق کی بدترین اور ظالمانہ آمریت کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل رہی اور اس کی شرئط بھی تباہ کن تھیں۔ ایک شرط تو یہ تھی کہ پاکستان کو امریکی اسلحہ کی پائپ لائن بنایا جاے گا جس کے ذریعے افغانستان تک اسلحہ اور گولہ بارود پہنچایا جاے گا۔ دوسرے یہ کہ افغان باغی جنہیں مجاہدین کہا جاتا تھا پاکستان کے مدرسوں میں تیار کیے جائِیں گے۔ اس مقسد کے لیے ملک بھر میں مدرسوں کا جال بچھایا گیا جس کہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ان ہی کے ذریعے ملک میں جہادی سوچ پروان چڑھائی گئی۔

یہ شرئط پوری کرنے کے چکر میں خود پاکستان اسلحے کی بڑی گزرگاہ اور منڈی بن گیا اور وہ ہتھیار جو افغانستان جانے تھے ان کی بڑی تعداد خود پاکستان میں بکنے اور استعمال ہونے لگی۔ اس کے علاوہ پچاس ساٹھ لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ بھی پاکستان پر پڑا جو جنرل ضیا لاے تھے۔

اسی کے عشرے کے اواکر تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اب سویت یونین اپنے نیے رہ نما گورباچوف کی قیادت میں افغانستان سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ امریکا بھی سویت یونین کو نکلنے کا موقع دینا چاہتا تھا تاکہ سرد جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ اب جنرل ضیا کو فکر تھی کہ اگر افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑ جاے گا اس لیے انہوں نے جنیوا معاہدے کی شدید مخالفت کی مگر اس واقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو جہ خود جنرل جیا الحق کے مقرر کردہ تھے نے اپنے وزیر خارجہ زین نورانی کے ساتھ مل کر معاہدے پر دست خط کر دیے۔

مئی انیس سو اٹھاسی میں جونیجو حکومت برطرف ہوئی اور اگست میں جنرل ضیا الحق کا فوجی طیارہ فضا میں تباہ ہو گیا جس میں امریکی سفیر بھی سوار تھے۔ کئی لوگوں نے اس میں بھی امریکا کا ہاتھ دیکھا اور خود جنرل جیا کے بیٹے اعجازالحق نے بارہا اسے امریکی سازش قرار دیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان سے لے کر بھٹو اور جنرل ضیا تک سب کے اقتدار کے خاتمے کے پیچھے کچھ لوگوں نے امریکی ہاتھ دیکھا۔ اب اگر ان سازشوں کو درست مان بھی لیا جاے تومقامی اہل کاروں کے ملوث ہونے کہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلا ایوب خان اپنے اقتدار کے اخرے برسوں میں امریکا کو پسند نہیں تھے مگر ان کو ہٹایا تو جنرل یحیی نے۔ اسی طرح بھٹو پی این اے کی تحریک کے پیچھے ایک بین الاقوامی سازش دیکھتے تھے مگر مارشل لا تو جنرل ضیا نے لگایا اور پھر گیارہ سال ملک پر مسلط رہے۔

اس لیے صرف امریکا پر الزام دھرنا انتہا درجے کی سادگی ظاہر کرتا ہے۔ جب انیس سو نوے کا عشرہ شروع ہوا تو امریکا کی اس خطے میں دل چسپی ختم ہو چکی تھی اور وہ مشرقی یورپ اور سابق سویت یونین پر توجہ دینے لگا۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستانی مقتدر حلقے یہ سمجھتے رہے کہ نام نہاد مجاہدین افغانستان میں ایک اسلامی اور پاکستان دوست حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے جو بھارت دشمن بھی ہوگی۔

یہ ایک بڑی حماقت تھی جس سے افغانستان کی خانہ جنگی چلتی رہی۔ 1990 کے عشرے کے اواخر تک امریکا یہاں سے تقریبا غائب ہو چکا تھا اور ہم نے طالبان کو اپنی امید بنا کر پالنا شروع کیا۔ جب انیس سو چھیانوے میں طالبان نے کابل پر قبضہ مکمل کر لیا تو صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان وہ تین ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو جائز اور قانونی تسلیم کیا تھا۔ اگلے پانچ برس امریکا تو اس خطے سے پرے رہا ہی باقی دنیا بھی طالبان کے بربریت پر مبنی نظام کو تسلیم نہ کر سکی۔

اس خطے میں امریکی دل چسپی صرف ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کے بعد بحال ہوئی جب امریکا پر حملوں نے دنیا کہ ہلا دیا تھا۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ایک بار پھر پاکستان ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے قبضے میں تھا جو اپنے پیشرو آمروں جنرل ایوب اور جنرل ضیا کی طرح اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔

امریکا کی مدد سے مشرف نو سال اقتدار پر قابض رہے اور پاک امریکا تعلقات بھی بہت اچھے رہے کیوں کہ مشرف نے ایک بار پھر امریکی اتحاد کی مکمل مدد اور حمایت کی تھی۔ تاکہ طالبان کو افغانستان سے نکالا جا سکے۔ طالبان کا خاتمہ تو نہ ہو سکا البتہ پاکستان پر دھوکا دہی کا الزام ضرور لگا۔

اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پی پی اور مسلم لیگ نواز کی دو حکومتوں نے سیاسی فیصلہ سازی کی کوشش کی تاکہ اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے بغیر خود خارجہ پالیسی بنا سکیں مگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی کیوں کہ چار اہم ترین وزارتیں یعنی دفاع، خزانہ، خارجہ، اور داخلہ سب اسٹبلشمنٹ کے زیر اثر رہیں۔

اب جب کہ عمران خان وزیر اعظم ہیں اور بظاہر حکومت اور ریاستی ادارے دونوں ایک صفحے پر نظر آ رہے ہیں امریکا کا اگلا دورہ بہت اہم ہو گا۔ ایجنڈے پر لازمی نکات میں پاکستان کے پڑوسیوں سے تعلقات زیر بحث آئیں گے یعنی افغانستان، ایران، اور بھارت کے ساتھ امریکا اور پاکستان کس رویے کا اظہار کرتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا۔

اب ضروری ہے کہ پارلیمان کو اس دورے پر اعتماد میں لیا جاے اور شفافیت سے کام لیا جاے۔ جنرل ایوب، یحیی، ضیا، اور مشرف سب انفرادی فیصلے کرتے رہے اب ضروری ہے کہ بالآخر سویلین بالادستی قائم کی جاے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).