عوام کو احتجاج کا راستہ حکومت نے خود دکھایا ہے


لیجیے ملک میں موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ احتجاج کا موجودہ سلسلہ ایک دم ہی نہیں شروع ہوا بلکہ اس کے پیچھے عوام کا کم و بیش ایک سال کا صبر ہے جو حکومت کے دعوؤں، وعدو ں کے بعد اب یقینا لبریز ہو چکا ہے۔ اس کا سلسلہ حکومت کے اقتدار کے آنے کے بعد ”سو دن کے پلان“ سے شروع ہوا۔ عوام نے سمجھ لیا کہ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں شاید موجودہ حکومت کے دور میں اُنہیں ریلیف مل جائے۔ اُن کے اُوپر سابقہ حکومتوں نے جو ٹیکسوں کی بھرمار کی ہے شاید اُس سے جان چھوٹ جائے۔

شاید ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ جائیں جس سے ملک کا عام آدمی بھی مستفید ہو سکے لیکن عام آدمی کے لئے سو دن کے پلان سے ہی مایوسی کا سفر شروع ہو گیا۔ شروع میں جب اپوزیشن شور مچاتی تھی تو یار دوست کہتے تھے کہ یا ر صبر کرو ابھی تو حکومت کو اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں اُنہیں کام کرنے کا کچھ وقت تو دو پھر دیکھنا ملک میں صحیح معنوں میں تبدیلی آئے گی۔ اب تو ایک سال ہونے کو ہے اور حکومت نے عام آدمی کی زندگی اس قدر مشکل بنا دی ہے کہ جس کسی نے بھی حکومت کو ووٹ دیا تھا وہ اب اس سے انکاری ہے کہ میں نے تو اس حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔

موجودہ حکومت نے کرپشن مکاؤ کے بیانیے پر الیکشن جیتا اور تاحال وہ اس بیانیے پر ہی قائم ہے۔ اس ضمن میں ملک کی دو بڑی جماعتوں کے سر پر ست اعلیٰ گرفتار بھی ہو چکے ہیں اور اپوزیشن کے دیگر راہنماؤں کے خلاف کیس بن چکے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک سے کرپشن ختم ہو چکی ہے؟ کیا وہ پیسہ جس کا ذکر وزیر اعظم اور اُن کے رفقاء کار کرتے ہیں ملک میں واپس آگیا ہے؟ بڑی دلچسپ بات ہے کہ حکومت ملک کی دوبڑی جماعتوں کو کرپٹ اور چور کہتی ہے اور جب اُنہی جماعتوں سے کوئی سیاستدان حکومت میں آنے کا عندیہ دیتا ہے تو اُسے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت کی کابینہ کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر چہرے آپ کو وہی نظر آئیں گے جو دوسری سیاسی پارٹیوں میں کرپٹ اور چور تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ وہی سیاستدان موجودہ حکومت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں او ر سابقہ حکومتوں کو تمام مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں جن کے پلیٹ فارم سے کبھی وہ خود سیاست کر رہے تھے۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے سابقہ حکومتوں کی جن اغلاط کی نشاندہی کی اب انہی غلطیوں کو خود ہی دہرا ا رہی ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ سابقہ حکومتوں کے بیرونی دوروں کو پیسے اور وقت کا ضیا ع سمجھتی تھی لیکن اب اُن کے اقتدار میں کیے گئے دورے بالکل ٹھیک ہیں۔ حکومت سابقہ حکومتوں کو بیرونی قرضوں پر خوب لتاڑا کرتی تھی لیکن اب وہ بیرونی امداد کے لئے نہ صرف مغرب بلکہ خلیجی ممالک سے بھی قرضوں کے لئے ہاتھ پھیلا رہی ہے۔

شنید یہ ہے کہ آئی ایم کی طرف سے قرض کی پہلی قسط بھیج دی گئی ہے جبکہ سعودی عرب سے پہلے ہی قرض مل چکا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے دس سال کی مدت کے لئے ایک پرسنٹ سودپر قرض لیا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب موجودہ حکومت کہتی ہے کہ ہم پرانی حکومتوں کا قرض اور اُس کا سود اُتار رہے ہیں تو کیا جو حکومت نے دس سال کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے تو کیا موجودہ حکومت کے پانچ سال کے بعد آنے والی حکومت کو وہ قرض اور سود واپس نہیں کرنا پڑے گا جو موجودہ حکومت تاحال لے رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ بجٹ کے ساتھ ہی حکومت اور عوام میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں کیونکہ حکومت نے بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکسوں کا جو بوجھ لادا ہے وہ اُس کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو ٹیکسوں کے چنگل میں اس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ اب اُن کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ حالانکہ اس ضمن میں تاجروں کے ساتھ مذاکرات کیے گئے لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انجمن تاجران پاکستان اور کار ڈیلرز ایسوسی ایشن نے 13 جولائی کو ملک گیر تحریک کا اعلان کیا جو ملک بھر میں کامیاب رہی۔

یاد رہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی پیش پیش ہیں۔ یقینا عوام اُن کے ساتھ جڑ رہی ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف کسی سیاسی پارٹی کا نہیں اور نہ ہی صرف انجمن تاجران پاکستان کا ہے بلکہ یہ مسئلہ ہر اُس شہری کا ہے جس نے اس ملک میں رہنا ہے۔ اس لئے وہ اگر اپنے مسائل پر آواز اُٹھاتا ہے تو موجودہ حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بھئی آپ کے بجٹ کو تو آپ کے سابق وزیر خزانہ ہی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور وہ برملا کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت نے واقعی عوام کو ریلیف دینا ہے تو اُنہیں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنا ہو گا۔

حکومتی وزراء ٹی وی چینلوں او رپریس میڈیا میں موجودہ بجٹ کو بالکل دُرست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام کو اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہو رہاجبکہ عوام نے سوئی گیس اور بجلی کے بلوں میں کم و بیش دو سو گنا اضافہ کر کے عوام کو چیخیں مارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالانکہ مہنگائی کے خلاف موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے اور احتجاجی ریلیاں نکالتی رہی ہے جبکہ 2014 کو موجودہ حکومت کا ”مشہور زمانہ دھرنا“ بھی عوام یقینا نہیں بھولے۔

سوشل میڈیا پر تنقید کا بازار علیحدہ سے گرم ہے، اپوزیشن کے حمایتی ڈھونڈ ڈھونڈ کر موجودہ وزیر اعظم کے بیانات کو سوشل میڈیا کا حصہ بناتے ہیں جبکہ حکومت کا درد رکھنے والے اپوزیشن کے خلاف اس طرح کی ویڈیو کلپس کو سوشل میڈیا کی زینت بنا کر اپنی دانست میں اپنی جماعت کی پالیسیوں کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں۔

خیال رہے کہ اس کشمکش میں عام آدمی متاثر ہو رہا ہے۔ اگر تو وہ سرکاری ملازم ہے تو اُسے تنخواہوں کا مسئلہ ہے کیونکہ ہر ادارہ سراپا احتجاج ہے کہ اُس کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ غیر سرکاری ادارے بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکا ر ہے کیونکہ ڈالر کی اونچی اُڑان نے مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ کیا ہے لہذا ہر ادارے سے نامساعد حالات کی وجہ سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے جس کی بڑی مثال پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہنر مند اور غیر ہنر مند ورکر ہیں جن کو سالہا سال کام کرنے کے باوجود فارغ کر دیا گیا ہے۔

اس لئے میڈیا خود بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ چھوٹے کاروبار کرنے والے الگ سے پریشان ہیں کیونکہ جہاں مہنگائی نے اُن کو پریشان کیا ہے وہاں حکومت کی طرف سے معاشی اصلاحات کی مد میں لگائے جانے والی نت نئی قدغنیں اُن کے کاروبار کو متاثر کریں گی۔ اسی لئے اُنہوں نے تاجر بچاؤ مہم کے تحت احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اُنہوں نے عندیہ دیا ہے کہ تاجر بچاؤ مہم کہیں حکومت گراؤ مہم میں تبدیل نہ ہو جائے۔

قارئین احتجاج کا جو لا متناہی سلسلہ شروع ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حکومت کے لئے درد سر ہی نہ بن جائے کیونکہ احتجاج کے روز ہی حکومت کی طرف سے پریس کانفرنس کرنا حکومتی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ بجائے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کو جوڑے، اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں تاجر اور کاروباری طبقہ ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت کی طرف سے اُس ریڑھ کی ہڈی پر ہی ضرب لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ نہایت برباری اور سنجیدگی ے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سابقہ حکومت نے تو آپ کے احتجاج کو انتہائی تحمل سے برداشت کیا تھا لیکن کہیں آپ کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں جس کی وجہ سے آپ عوام سے مزید دور ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).