ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان


ہماری زمین کا موسم پچھلے کچھ سالوں سے تبدیل ہو رہا ہے، تکنیکی الفاظ میں اسے ”ماحولیاتی تبدیلی“ کا نام دیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا مطلب ہے، موسمی پیٹرن میں تبدیلی آنا، نہ صرف موسم کا انتہائی گرم ہونا بلکہ بہت ٹھنڈا ہونا، خشک سالی، سیلاب، اور طوفان باد و باراں بی اس میں شامل ہیں۔ ہماری فضا سانس لینے کے قابل نہیں رہی، 2 سال کے بچے سے لیں کر 65 سال کے بوڑھے تک، الرجی، دمہ اور متعدد سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہمارے پانی کے ذخائر میں نہ صرف سال با سال کمی آتی جا رہی ہے، بلکہ موجودہ ذخائر آلودہ ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں رہے، شہروں میں سموگ کاروبار زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے، کہ کیا یہ اکیسویں صدی کا مسئلہ ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ انیسویں صدی ہی میں سائنسدانوں نے یہ مشاہدہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ زمین کے موسمیاتی پیٹرن میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ علاقے جہاں سال ہا سال برف کی تہہ بِچھی رہتی تھیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دورانیہ میں کمی آتی جا رہی تھی، تو دوسری طرف وہ علاقے جہاں موسم گرم رہتا تھا، مزید گرمی کی لپیٹ میں آتے جا رہے تھے۔ مسئلہ تو موجود تھا، اب اس کی وجوہ کی طرف توجہ دی گئی، 1960 میں سائنسدا نوں نے ماضی کے موسمی حالات اور اس وقت کے حالات میں ہونے والے فرق کا مشاہدہ کرتے ہوے، یہ نتیجہ اخذ کیا، کہ انسانی سرگرمیاں فضا میں کچھ ایسی تبدیلی لانے کا سبب بن رہی ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں متواتر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس سے پہلے اٹھارویں صدی میں ہی گرین ہاؤس افیکٹ کے بارے میں سائنسدان نا صرف جان چکے تھے، جس کے مطابق زمین کی فضا میں مختلف گیسوں کی شکل میں ایسی تہہ بن جاتی ہے جو انرجی کو جذب کرنے اور پھر گرمی کی شکل میں چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، جو اس کرہ ارض کو ہر قسم کی حیات کے لیے زندہ رہنے کے قابل بناتا ہے، بلکہ یہ نظریہ بی گرد ش میں تھا، کہ انسان ان گیسوں میں اضافہ کر کے درجہ حرارت کو بڑھانے پر قادر بی ہے۔

اس نظریے کو سامنے رکھتے ہوے 1990 میں پہلے کمپیوٹرائزڈ ماڈل کی بدولت یہ نظریہ درست ثابت ہو گیا کہ گرین ہاؤس افیکٹ میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے زمینی ماحول میں اہم تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نتروس آکسائیڈ، اوزون، اور کچھ مصنوعی کیمیائی مرکبات جیسے کہ کلوروفلوور کاربز شامل ہیں۔

گرین ہاؤس افیکٹ درجہ حرارت میں اضافہ کر کے، گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا جیسے برف پوش علاقوں کی برف پگھلانے کا باعث بن رہا ہے۔ حالیہ شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ”2025 تک بحر منجمند شمالی اور جنوبی کی برف پگھلنے سے سطح سمندر میں 3.2 فیٹ کا اضافہ ممکن ہے۔ اس سے شدید طوفان، موسلا دھار بارش، اور قحط سالی کا سامنا کرنا پر سکتا ہے، اس کے علاوہ بڑی تعداد میں جنگلی حیات اور پودے اپنی بقا میں ناکام ہو جائیں گے۔

ہم ایک مشینی دور میں جی رہے ہیں، جہاں ہم ذرائع آمد و رفت کے لیے گاڑیوں، موٹر سائیکلز، ہوائی جہازوں پر انحصار کرتے ہیں، جنہوں نے دنوں کے فاصلے سمیٹ کر گھنٹوں اور منٹوں میں کر دیے ہیں۔ الیکٹرونکس کے آلات جو ہمارے باورچی خانے، بیڈروم، باتھ روم تک ہماری زندگیوں کو آرام د ہ بنا رہے ہیں، ان سب آلات و مشینوں کو چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بجلی کوئلہ، گیس یا تیل کو جلا کر حاصل کی جاتی ہے، اور جلانے کے عمل میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہو کر فضا میں موجود مصنوعی تہہ کو دبیز کرنے کی وجہ بن رہی ہے، جو زمین سے ٹکرا کر واپس خلا میں چلی جانے والی سورج کی شعاعوں کی ایک بری مقدار کو جذب کر لیتی ہے، اور درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بنتی ہے، یہ پورا عمل گرین ہاؤس افیکٹ میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

ناسا کاربن مانیٹرنگ سسٹم کے تحت 2010 میں پہلی دفعہ فضا میں کاربن کی مقدار کا جائزہ لیا گیا، ماہرین کے بقول، دس لاکھ ذرّے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ساڑھے چار سو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، اپریل 2019 میں یہ مقدار چار سو تیرہ پارٹس پر ملین تک پہنچ چکی ہے، جو کے خطرناک صورت احوال کی طرف اشارہ ہے۔

یہ مسئلہ پوری دنیا کا ہے، اس لیے ترقی یافتہ ممالک اپنی عوام میں آگاہی پیدا کرنے سے لے کر، موسمیاتی تبدیلی پر ڈاکٹریٹ کروانے اور، انوائرنمنٹل لا اور پالیسیز بنانے تک میں اپنا اربوں، کھربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں ان ممالک میں دوسرے اداروں کی طرح موسمیاتی تبدیلی کے ادارے ہی میں وہ افراد جو مطلوبہ شعبے میں کام کرنے کی اہلیت اور ڈگری رکھتے ہیں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، یہی وجہ ہے، جتنا پیسہ ان پٹ کی صورت میں لگایا جاتا ہے، منصوبوں کے کامیاب ہونے پر آوٹ پٹ کی صورت میں وصول ہو جاتا ہے۔

اب آتے ہیں ترقی پذیر ممالک کی طرف جو محدود وسائل رکھتے ہیں، یہ ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے پا س پہلے ہی وسائل کی کمی ہے، دستیاب وسائل جو تعمیری کاموں میں خرچ ہونے چاہیے قدرتی آفات میں ہونے والے نقصان کی بر پائی پر صرف ہو جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی کمزور معیشت ایسے غیر پیداواری بوجھ کو سہارنے کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے پہلے ہی سے ناگہانی آفا ت سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کیں جاتی ہیں، تا کہ نقصان کم سے کم ہو۔

پاکستان بی پچھلے کچھ سالوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں، طوفانوں اور شدید درجہ حرارت جیسی مشکلات کا سامنا کرتا رہا ہے۔ جیسے کہ، 2007 خیبر پختون خواہ، سندھ اور بلوچستان میں مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب، 2010، جس میں تقریباً پورا پاکستانی علاقہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا، 2011 میں ایک بار پھر سے سندھ مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب، 2013 میں پاکستان کے کچھ علاقے مسلسل ہونے والی بارش کی وجہ سے اور 2014 میں چناب اور جہلم میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث بڑہے پیمانے پر نقصان برداشت کر چکا ہے، اس کے علاوہ پچھلے کچھ سالوں سے گرمیوں میں بلند ترین اور سردیوں میں کم ترین درجہ حرارت دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مئی 2019 سے ہی پاکستان گرمی کی شدید لہر کا سامنا کر رہا ہے۔

دوسرے ترقی پذیر ممالک کو دیکھتے ہوے اور بہت سا نقصان اٹھانے کے بعد پاکستان ہی نے 2017 کو وزارت ماحولیاتی تبدیلی کا ادارہ قائم کیا، جو دیر آید درست آید کے مصداق ایک اچھا اقدام تھا۔ جس میں کل 173 ملازمین کام کرتے ہیں، اس ادارے کا 2018 سے 2019 کا سالانہ بجٹ 80 ملین روپے تھا، اس ادارے کا ایک پانچ سالہ منصوبہ 1.5 ملین درخت لگانے کا ہے، جس کے لیے 12 ملین روپے مختص کیے گئے۔ ایک اچھا اقدام کلین گرین پاکستان موومنٹ کے ذریعے عوا م میں آگاہی پیدا کرنا بی تھا۔ اس ادارے ہی نے وطن عزیز کے دوسرے اداروں کی طرح سوائے پبلسٹی کے کسی بی قسم کا بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا نہ ہی شروع کیے گے منصوبے میں سے کوئی کامیاب ہوا۔ اس کے علاوہ گلوبل چینج امپیکٹ اسٹیڈز سینٹر بھی ایک اہم حکومتی ادارہ ہے، جو آج تک ایک بھی کامیاب پروجیکٹ نہ دے سکا۔

جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک پیشہ ور اداروں اور تعلیمی اداروں کے اشتراک سے کامیاب تحقیقی پروجیکٹس کے ذریعے بہت سے سوالوں کے جوابات اور اہم نتائج حاصل کر لیتے ہیں، اس ضمن میں لیڈ پاکستان جو کہ ایک انڈیپنڈنٹ ادارہ ہے، اپنی کارکردگی کے لحاظ سے تمام اداروں پہ سبقت لے گیا، اس ادارے نے نہ صرف عوام میں بڑھتے درجہ حرارت کے بارے میں آگاہی پیدا کی، بلکہ حکومت، ڈونرز، اور عام شہری کو ایک ایسا پلیٹ فورم مہیا کیا، جہاں نہ صرف مسائل پر بحث کی جاتی ہے، بلکہ حل کے بارے میں تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں کچھ اقدامات کرنے کی ازحد ضرورت ہے، جن میں سر فہرست، پلاسٹک بیگز پر پابندی، کثیر تعداد میں درخت لگانا، قابل تجدید توانائی، جیسے ہوا، پانی سے یا سورج کی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا، فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے بھوسے کو آگ نہ لگانا، گاڑیوں کی دیکھ بھال کرنا تا کہ دھواں کم مقدار میں خارج ہو، بجلی کا کم سے کم استعمال کرنا شامل ہیں۔

یاد رکھیے، ہرمسئلہ کو حکومت پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنا، نتائج کو مزید بھیانک کرسکتا ہے۔ ہر وقت حکومت کو صلواتیں سنانے سے بہتر ہے، جو کام آپ کے دائرہ اختیار میں ہیں، وہ تو کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).