معجزہ، جو ایک تحریر کا منتظر تھا


’’ہم سَب ڈاٹ کام‘‘ میرے لیے گھر کہ حیثیت رکھتا ہے کہ کہیں بھی چلے جاؤ واپس تو آخِر یہیں آنا ہے۔ ہم سَب کے لیے لکھتے ہوئے یہ میرا دوسرا سال ہے۔ بہت زیادہ تو نہیں لِکھ سکی لیکن جتنا بھی لکھا اُس کی وجہ سے بہت پیار اور عزت ملی جِس کے لیے میں قارئین کی ممنون ہوں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی ملے جنھیں میں کبھی نہ جان پاتی اگر لکھنا نہ شروع کرتی۔ کم لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں تبھی قلم کو زحمت دیتی ہوں جَب کوئی واقعہ ایسا گزرے جو لکھنے پر مجبور کر دے۔ آج کی تحریر میرے دل کے بہت قریب ہے۔ یہ پڑھتے ہوئے شاید آپ کی انکھیں بھی نم ہو جائیں یا آپ مکمل طور پر بور ہوجائیں۔ لیکن وعدہ کیا تھا تو لکھنا تو تھا۔

مجھے کینیڈا میں رہتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اَب یہ ملک مجھے اپنا ہی لگتا ہے۔ لیکن جَب کوئی خوشی کا موقع ہو یا دُکھ پریشانی ہو تو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ خاص طور پر عید پر اپنے تمام دوست، رشتہ دار جو ہر خوشی اور غم میں شریک رہتے تھے سَب بہت یاد اتے ہیں۔ لیکن اِس سال ایک عجیب واقعہ میرے ساتھ پیش آیا جیسے بہت سی بے مہر راتوں کے بعد کوئی مہرباں صبح دروازے پر دستک دے دے، جیسے کوئی بھولا ہوا گھر واپس آ جائے یا جیسے کوئی روٹھا ہوا آپ ہی آپ من جائے۔ میں کچھ دن قبل ٹوئٹر پر ایک تصویر پوسٹ کی تھی جو غالباً اِس تحریر کے ساتھ بھی آپ کو نظر آ جائے گی۔ اِس تصویر میں چند تصانیف نظر آ رہی ہیں جو کہ مختلف شاعروں اور ادیبوں کی ہیں۔ یہ تصانیف مجھے کسی خزانے کی طرح ملی ہیں، جیسے کوئی گمشدہ میراث تھی جو بس میرے ہی تعاقب میں تھی۔

میں نے ستمبر 2018 میں ایک بلاگ لکھا تھا جس میں میں نے اپنے اجداد کی ہندوستان سے ہجرت کی روداد بیان کی تھی۔ اُس بلاگ کے چھپنے کے دو دن بعد مجھے فیس بک پر ایک پیغام موصول ہوا جِس کا مضمون کچھ یوں تھا ”ڈیئر سیماب، آر وی ریلیٹڈ؟ مائی نیم اِز حشمت عباس نقوی۔ آئی ہیو بین اِن کینیڈا سِنس 1964“ (پیاری سیماب، کیا ہمارا ایک دوسرے سے کوئی رشتہ ہے؟ میرا نام حشمت عباس نقوی ہے، میں 1964 سے کینیڈا میں مقیم ہوں۔‘‘

یہ کوئی عام پیغام نہیں تھا۔ میں اِس نام سے بالکل ناواقف تھی لیکن عباس نقوی پڑھ کر میرے دل کی کیفیت عجیب ہو گئی۔ میں نے فوراً اُنھیں اپنے والد اور دادا کا نام بتایا جِس پر اُنھوں نے مجھے بہت سی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھیج دیں کہ اِن میں سے آپ کس کو پہچانتی ہیں۔ وہ میرے نانا اور نانی کی تصاویر تھیں۔

میری اُس وقت کیا حالت تھی بیان سے باہر ہے۔ یہ بلا مبالغہ ایک انتہائی ذاتی اور دل سوز بلاگ ہے۔ میں نے جیسے ہی وہ تصاویر اپنی امی کو دکھائیں تو اُنھوں نے فوراً کہا ”یہ تو حشمت بھیا ہیں، جو کوئی پچاس سال پہلے کینیڈا آ گئے تھے“۔ میری امّی نے حشمت عباس ماموں کو اُس وقت دیکھا تھا جَب امّی آٹھ سال کی تھیں۔ امّی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ تمہیں حشمت بھیا کیسے ملے تو میں نے اُن کو ہم سب کے بلاگ کا ماجرا سنایا کہ میرا بلاگ پڑھ کر حشمت ماموں نے مجھے فیس بک پر پیغام بھیجا تھا۔

اِس پہلی گفتگو کے بعد حشمت ماموں سے تقریباً روز ہی بات ہونے لگی اور میری خوش قسمتی دیکھیے کہ اُن کی اور میری دلچسپیاں بھی ایک جیسی نکل آئیں، حشمت ماموں کو بھی فوٹو گرافی کا شوق ہے اور اس کے ساتھ اردو اور انگریزی ادب میں بے پناہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پوری دنیا گھوم چکے ہیں۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ یوں پاکستان سے دور مجھے کوئی اپنا مل گیا۔ لیکن سب سے بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ جہاں میں رہتی ہوں، حشمت ماموں اُس شہر سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ٹورونٹو میں مقیم تھے۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں نے اور اُنھوں نے ملاقات کا ارادہ کیا اور ابھی حال ہی میں میرے خانوادے اور اُن کے خانوادے کی ملاقات بھی ہو گئی۔ میں نے پہلی بار اُن کو دیکھا تو بالکل نہیں لگا کہ میں اُن سے پہلی بار مل رہی ہوں۔ میری والدہ کی اُن سے پچاس سال بعد یہ ملاقات کینیڈا میں ہو رہی تھی۔ وقت کیسے گزرا کچھ پتا نہیں چلا۔ ملاقات پر معلوم ہوا کہ وہ میرے والد کے ہم عصر ہیں۔ میرے والد اور وہ گھنٹوں پرانی یادیں تازہ کرتے رہے اور میں اُن کی اہلیہ کے ساتھ یوں گھل مل گئی جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

اُنھوں نے مجھے رخصت سے پہلے ایک تھیلا تھمایا۔ تھیلا خاصا بھاری تھا، میں نے کھولا تو اُس میں کتابیں تھیں۔ میں نے کتابیں باہر نکالنا شروع کیں تو میرا دل جیسے حلق میں آ گیا۔ شامِ شہرِ یاراں، نقشِ فریادی، دستِ صبا، دستِ تہ سنگ، زنداں نامہ، جوش کی الہام و افکار، فہمیدہ ریاض کی بدن دریدہ، مصطفی زیدی کی قبائے ساز، صدیق سالک کی ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“، اور مستنصر حسین تارڑ کی ”گزارا نہیں ہوتا“۔ کتابیں کیا تھیں کوئی نسخہ کیمیا تھا جو میرے ہاتھ لگ گیا تھا۔

جیسے خام سے سونا بنانے کا کوئی کلیہ ہو جو مجھے مالا مال کرنے کے انتظار میں تھا۔ میں کبھی اُن کتابوں کو دیکھتی تھی اور کبھی حشمت ماموں کو، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں، شکریہ کا لفظ بالکل اپنے معنی کھو چکا تھا۔ لیکن یہ ابھی میری حیرانی کی حد نہیں تھی۔ میری حیرانی اپنی حد کو پھلانگ کر کئی فرسخ آگے نکل گئی جَب میں نے وہیں شامِ شہرِ یاراں کو کھولا اور سر ورق پر فیض احمد فیض کے دست خط کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا ”حشمت عباس کے لیے“، یعنی حشمت ماموں فیض سے بھی مل چکے تھے اور یہ کتابیں اب میری تھیں۔

میرے پوچھنے پر اُنھوں نے بتایا کہ فیض احمد فیض اسّی کی دہائی میں کینیڈا آئے تھے۔ اُس وقت حشمت ماموں کے ایک دوست کے گھر اُن کی فیض سے ملاقات ہوئی تھی تب یہ تمام کتابیں فؔیض نے اُن کو دی تھیں اپنے آٹوگراف کے ساتھ۔ یہی نہیں اُن کو فیض کے ساتھ نیاگرا فال دیکھنے جانے کا بھی فیض حاصل ہوا۔ اب میں سوچ میں پڑ گئی کہ سیماب یہ کیا ہو گیا؟ تم نے ایک بلاگ ہی تو لکھا تھا، تو کیا ہوا، کئی لوگ لکھتے ہیں، تو کیا سَب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ کیا سَب کو اُن کے بچھڑے ہوئے رشتے دار مِل جاتے ہیں؟

میرے پاس اِن سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ بَس یہ کتابیں ہیں، میں ہوں اور حیرت کا ایک عالم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).