میرے اساتذہ ۔۔۔۔ کوئی ایسا بھگت سدائے


میں ایک دیہاتی سکول کا طالب علم تھا۔ ہائی سکول تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر دوسرے گاوں میں تھا۔ اس زمانے میں تھوڑے سے طالب علم آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا کرتے تھے جسے وظیفے کا کہا جاتا تھا۔ وہ امتحان میں نے بھی دیا تھا لیکن وظیفے کی رقم کا بوجھ کبھی حکومت پر نہیں ڈالا۔

امتحان کا ابھی نتیجہ نہیں آیا تھا لیکن ہم نے نوویں جماعت میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ میٹرک کی کلاس کے تین سیکشن تھے۔ میں ماسٹر خادم حسین صاحب کے اے سیکشن میں بیٹھا کرتا تھا۔ ماسٹر صاحب میرے بڑے بھائی جان کے بھی استاد تھے۔ میرے بھائی جان کا سیشن اس سکول سے میٹرک کرنے والا اولین بیج تھا کیونکہ اس سے پہلے سکول مڈل تک ہی ہوا کرتا تھا۔

جب رزلٹ آیا تو میرے نمبر کچھ اتنے اچھے نہیں تھے، بس فرسٹ ڈویژن آ گئی تھی۔ اب بورڈ کا امتحان پاس کرنے والے لڑکوں کو سیکشن الاٹ کرنے کے لیے سیکشنوں کے انچارج اساتذہ کی میٹنگ ہوئی۔ سی سیکشن کے انچارج ماسٹر اقبال صاحب سکول میں انھی دنوں تبدیل ہو کر آئے تھے۔ نمبروں کے حساب سے میرا سی سیکشن میں نام آ رہا تھا۔ ماسٹر خادم صاحب نے اقبال صاحب سے کہا آپ زیادہ نمبروں والا لڑکا لے لیں اور اسے میرے سیکشن میں ہی رہنے دیں۔ وہ بخوشی مان گئے۔ اقبال صاحب ہمیں حساب اور جنرل سائنس پڑھاتے تھے۔ حساب ان کا بہت اچھا تھا۔ جب ہم طالب علم جنرل سائنس کا پیریڈ پڑھنے ان کے پاس گئے تو اقبال صاحب نے مجھ سے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ میں جواب دیتا رہا۔ آخر پر ان کی زبان سے یہ فقرہ ادا ہوا، لگتا ہے غلطی ہو گئی ہے۔

یہ وہ دن تھے جب ملک میں صدارتی انتخاب ہو چکے تھے۔ ہمارا گھرانہ مادر ملت کا حامی تھا۔ رحیم یار خان میں ماموں جان مادر ملت کے الیکشن ایجنٹ تھے۔ ایوب خان کے دھاندلی سے جیتنے کا سخت رنج تھا۔ مادر ملت کے الیکشن ہارنے سے دل پر مایوسی طاری تھی۔ ایک دن کلاس میں لڑکوں کو تقریر کرنے کو کہا گیا ۔ جب میری باری آئی تو میں نے ایوب خان کے خلاف ایک زور دار تقریر کر دی جس میں الیکشن میں دھاندلی اور اس کی مالی کرپشن کا ذکر تھا۔ اس زمانے میں گندھارا کا بہت ذکر ہوا کرتا تھا۔ حبیب جالب کا انھی دنوں شائع ہونے والا مجموعہ “سر مقتل” میں پڑھ چکا تھا اور اس کی کتنی ہی نظمیں زبانی یاد تھیں۔ خیر ماسٹر خادم حسین صاحب نے مجھے ہلکی سی سرزنش کی کہ اس قسم کی تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی۔

دسویں جماعت میں یہ ہوا کہ ایک دن صبح کی اسمبلی میں جب ہمارے سیکشن کی باری تھی تو میں نے ایوب خان کے خلاف تقریر کی اور اس میں حبیب جالب کی نظم، صدر عیوب زندہ باد، کا جب یہ مصرع پڑھا بیس روپے من آٹا، تو ساتھ ہی یہ بھی کہا اب تو تیس روپے من مل رہا ہے۔ چودھری نعمت اللہ صاحب ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے۔ دیہاتی ماحول میں وہ واحد استاد تھے جو انگریزی میں انگریزی پڑھا سکتے تھے۔ بہت روانی سے انگریزی بولتے تھے جس سے طالب علم بے چارے کافی تنگ رہتے تھے۔ انھیں میری تقریر پر بہت غصہ آیا اور انھوں نے جواب میں حکومت کا زبردست دفاع پیش کیا۔

 ڈیڑھ دو مہینے بعد پھر ہمارے سیکشن کی باری آ گئی۔ اب کے میری تقریر اتنی سیاسی تو نہیں تھی، لیکن تھی حکومت کے خلاف ہی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک مقام پر غصے کے عالم میں مجھے ٹوک دیا۔ اس پر میں تقریر ختم کرکے واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اگلے روز میں سکول نہ گیا۔ کرکٹ کا میچ ہو رہا تھا، سوچا ریڈیو پر کمنٹری سنتا ہوں۔ شام کو مجھے ایک کلاس فیلو نے بتایا کہ آج تمھاری تقریر کے جواب میں بی سیکشن کے ایک لڑکے نے حکومت کی حمایت میں تقریر کی ہے۔ اگلے روز سی سیکشن کی باری تھی۔ تقریر کرنے والے طالب علم کا نام ارشاد تھا، جو میرا بہت اچھا دوست تھا۔ اس کے والد ماسٹر کریم بخش صاحب سکول میں استاد تھے۔ جب سکول مڈل تک تھا تو وہ ہیڈ ماسٹر تھے۔ ارشاد نے بھی حکومت کے خلاف سخت تقریر کی۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے کچھ اس قسم کی بات کی تھی یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ جو لوگ ووٹ نہ دیں ان کے گھروں کوآگ لگا دی جائے۔ اس کا اشارہ الیکشن کے بعد کراچی میں ہونے والے واقعات کی طرف تھا۔ اب ہیڈ ماسٹر صاحب نے سوچا کہ یہ تو سیاسی تقریروں کا سلسلہ ہی شروع ہو گیا ہے۔ اس پر انھوں نے بہت دھیمےانداز میں کہا ان معاملات میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے اس لیے اس بات کو اب یہیں ختم کر دینا چاہیے۔

ماسٹر خوشی محمد صاحب ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ وہ نئے نئے استاد مقرر ہوئے تھے۔ ہم ان کے اولین شاگرد تھے۔ ایک دن انھوں نے پاکستان پر مضمون لکھنے کو دیا۔ میں نے آٹھویں جماعت سے ہی مضمون کسی خلاصے یا ٹیسٹ پیپر سے یاد کرکے لکھنے کے بجائے خود لکھنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ میں نے پاکستان کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایوب خان کی حکومت کے خلاف بھی چند فقرے لکھ دیے۔ اس کے بعد مضمون کے لیے ایک اور عنوان ملا: صدر ایوب کے عہد حکومت کے کارنامے۔ میں نے اس پر کوئی چار پانچ صفحے لکھے جن میں ہر ممکن طریقے سے حکومت کو برا بھلا کہا۔ الیکشن میں دھاندلی کا بطور خاص ذکر کیا۔ اس کا آخری جملہ مجھے آج تک یاد ہے: یہ ہیں عہد ایوبی کے چند کارنامے۔ ماسٹر خوشی محمد صاحب نے باقی لڑکوں کی کاپیاں چیک کرکے واپس کر دیں لیکن میری کاپی واپس نہ کی۔ وہ انھوں نے ماسٹر خادم حسین صاحب کو بھجوا دی۔ جب ایک لڑکا وہ کاپی دے کر گیا تو ماسٹر صاحب نے مجھے اپنی کرسی کے قریب بلا کر کہا تمھارا جیل جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے جواب دیا ابھی تو نہیں۔ کہنے لگے دیکھو تم تقریریں کرتے رہتے ہو، ہم نے تمھیں کبھی منع نہیں کیا۔ لیکن برخوردار لکھ کر ایسی بات نہیں کیا کرتے۔ اگر معائنے پر آئے ہوئے کسی انسپکٹر کی تمھاری کاپی پر نظر پڑ گئی تو کیا ہو گا؟ اس فہمائش کے بعد انھوں نے کاپی مجھے واپس کر دی۔

بہر حال ایوب خان کی مخالفت کہ یہ سلسلہ کالج میں آ کر بھی جاری رہا۔ ایف اے کا دوسرا سال تھا جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ ہم بھی کالج سے جلوس نکالتے تھے۔ ایک بار مال روڈ پر بنک سکوئر کے سامنے پولیس کی لاٹھیوں سے بھی واسطہ پڑا۔ لیکن ہر بار ہوتا یہی ہے

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).