حشر گلفشانی کا بہرہ پن


شاہانہ: (ہوم ورک کرتے ہوئے) دادا جان ! سلیکٹیڈ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

حشرگلفشانی: الیکٹیڈ سے مراد وہ نمائندے ہیں بیٹا، جنہیں عوام منتخب کرتے ہیں ۔

سلمیٰ : (حشرگلفشانی کے کا ن میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے) یہ سلیکٹیڈ کا پوچھ رہی ہے اباجی! بچوں کو گمراہ مت کریں ۔

حشرگلفشانی: ( کان سے آلہ سماعت اتارتے ہوئے) بچوں کے منہ میں غیر پارلیمانی الفاظ مت دو بہو! تمہاری بیٹی نے جو پوچھا، میں نے بتا دیا۔

بلال: (ماں کے موبائل پر کارٹون دیکھتے ہوئے) یہ دیکھیں داداجان! اس ویڈیو میں ……

حشرگلفشانی: ہائیں، تم نے بھی دیکھ لی ویڈیو؟ ارے بیٹا یہ جعلی ہے، دفعہ کرواسے۔ بچے ایسی چیزیں نہیں دیکھتے۔

شاہانہ: (ہوم ورک کرتے ہوئے) دادا جان! قلبی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

حشرگلفشانی: طلبی کا یہ مطلب ہے بچے کہ جب کسی سیاستدان کو نیب یاعدالت میں طلب کیاجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کی طلبی ہوگئی۔

شاہانہ: سیاستدانوں کو کیوں طلب کیا جاتا ہے داداجان؟

حشرگلفشانی: بدعنوانوں کو کیوں طلب کیا جاتا ہے؟شاوش اے …اور کیا پاکبازوں کو طلب کیا جائے گا بیٹا؟

بلال: داداجان! یہ خلائی مخلوق کیا ہوتی ہے؟

حشرگلفشانی: لائی مخلوق نہیں بیٹا! اس کا پورانام ہے لائی لگ مخلوق۔ اسے لائی لگ اس لیے کہتے ہیں کہ جدھرکوئی ہانک دے، ادھرہی چل پڑتی ہے۔

شاہانہ: داداجان! پھرتو یہ مخلوق گائیوں جیسی ہوئی نا؟

حشرگلفشانی: بالکل سائیوں جیسی، شاباش میری گڑیا۔ یہ ایسے سائیں لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں جس ٹرک کی بتی کے پیچھے چا ہے لگا دو، دوڑ پڑیں گے۔

انتظارعلی: (حشرگلفشانی کا بیٹا) بتی چاہے بنیادی جمہوریتوں کے کھٹارے کی ہو یا غیرجماعتی انتخابات کے چھکڑے کی۔ گڈ گورنس کے ٹرک کی ہو یا سونامی کے ٹرالر کی۔

شاہانہ: ابو! آپ کی بات سمجھ تو نہیں آئی مگر یہ ان بتیوں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں ؟

انتظارعلی: اس لیے بیٹا کہ سائیں لوگ اور لائی لگ جو ہوئے۔

بلال : میں خلائی مخلوق کا پوچھ رہا ہوں داداجان ۔

حشرگلفشانی: اچھا اچھا بالائی مخلوق۔ بالائی مخلوق وہ ہوتی ہے بیٹا جو ریاست کے وسائل کی بالائی خود کھا جاتی ہے اور عوام کے دامن میں بھاری قرضے چھوڑ جاتی ہے۔ انہیں چور اور لٹیرے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں بالائی مخلوق کہا جاتا ہے۔

سلمیٰ: کیوں بچوں کو گمراہ کیے جا رہے ہیں اباجی! یہ خلائی مخلوق کا پوچھ رہے ہیں ۔

حشرگلفشانی: ارے بہو میں بھی تو انہیں دیومالائی مخلوق ہی کا بتا رہاہ وں نا۔ تم بھی سمجھ لو کہ بالائی یا دیومالائی مخلوق وہ ہوتی ہے جو، لائی لگ مخلوق کے ووٹ لے کر ان کے حقوق غصب کرتی رہی ہے اور اب اڑیکے لگی ہوئی ہے ۔

سلمیٰ: اور ڈنڈے کے زور پر آنے والی آبائی مخلوق تو ان کے حقوق کا بہت تحفظ کرتی ہے۔

حشرگلفشانی: کُنڈے کے زور پر؟ ارے کنڈے کے زور پر تو بجلی چوری کی جاتی ہے بہو! اس فعل کا حکومت کرنے سے کیا تعلق؟

بلال: یہ مخلوق اڑیکے کیوں لگی ہوئی ہے دادا جی؟

حشرگلفشانی: اس لیے بیٹا کہ وہ ملک کو لوٹتے ر ہے ہیں، مگراب کوئی بالائی مخلوق، کوئی لوٹ مار نہیں ۔ تبدیلی آ گئی ہے بچے۔

سلمیٰ: (ہنستے ہوئے) جی تبدیلی آ گئی ہے، ڈالر اور بھی مہنگا ہو گیا ہے۔

حشرگلفشانی: اچھا لہنگا بھی مہنگا ہو گیا ہے؟ تمہیں پھر نیا لہنگا درکار ہو گا بہو۔ تمہاری بہن کی شادی جو آ گئی ہے۔

سلمیٰ: عوام کے لہنگے کی فکرکریں حضور، بجٹ میں نئے ٹیکس اور مہنگائی کا سیلاب….

حشرگلفشانی: ہاں ہاں، توانائی کا سیلاب ۔ ارے اب تو ہم بجلی ایکسپورٹ بھی کریں گے بیٹا، دیکھنا تم۔

سلمیٰ: میں معاشی بحران کی بات کر رہی ہوں جناب! معاشی بحران کی۔

حشرگلفشانی: میں بھی نئے پاکستان کی بات کر رہا ہوں جناب! نئے پاکستان کی۔

سلمیٰ: ہمارا آپ سے بنیادی اختلاف یہی ہے اباجی! ہم ووٹ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ نادیدہ قوتوں پر۔

حشرگلفشانی: پسندیدہ قوتوں پر؟ بالکل صحیح۔ اپنی پسندیدہ قوتوں پر بھروسہ کر کے ہی کامیابی ملتی ہے بیٹا اور ہمارے نزدیک عوام کا سونامی سب سے پسندیدہ قوت ہے۔

انتظارعلی: (اونچی آوازمیں ) یہ نادیدہ مخلوق کی بات کر رہی ہے قبلہ۔

حشرگلفشانی: میں بھی سنجیدہ مخلوق ہی کی بات کر رہا ہوں قبلہ۔ اگراس ملک میں چند سنجیدہ لوگ نہ ہوتے تو تمہارے جیسے عاقبت نااندیش کب کے لٹیا ڈبو چکے ہوتے، سمجھے؟

بلال: (حشرگلفشانی کے کان میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے) میرے سوال کا جوب دیں داداجان! مجھے خلائی مخلوق کا بتائیں ۔

حشرگلفشانی: ( کا ن سے آلہ سماعت اتارتے ہوئے) ہائیں ! تمہیں ابھی خلائی مخلوق کا بھی نہیں معلوم؟ میں پوچھتاہوں انتظارعلی کہ یہ لوگ سکول میں بچوں کو پڑھاتے کیا ہیں؟

سلمیٰ: خلائی مخلوق تو ابھی خلائی سائنسدانوں کو نظرنہیں آئی ابا جی، سکول والوں نے کہاں سے دیکھ لی کہ وہ اس کے بارے میں بچوں کو بتائیں ؟

انتظارعلی: (شاہانہ کی نقل اتارتے ہوئے) یہ میڈیا پر سنسر کیا ہوتا ہے دادا جان؟

حشرگلفشانی: میڈیا کا کینسر یہ ہوتا ہے میری جان کہ جب میڈیاآزادی کے نام سپرشتربے مہارہوجائے تو کہاجاتا ہے کہ میڈیا کا کینسرمعاشرے میں پھیل چ کا ہے۔ اس کا علاج بہت ضروری ہوتا ہے، ورنہ معاشرے میں انتشارپھیلتا ہے۔

سلمیٰ: اس کا علاج کیا ہوتا ہے ابا جان، کیا آپ کا اشارہ چینلزکی بندش کی طرف ہے؟

حشرگلفشانی: ہاں چینلزکی چپقلش ۔ ارے انہوں نے ہی تو بیڑا غرق کر رکھا ہے ملک کا ۔

سلمیٰ: (حشرگلفشانی کے کا ن میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے) ویسے اباجی! میں نے سنا ہے کہ میڈیا پر برا وقت ہے۔

حشرگلفشانی (کا ن سے آلہ سماعت اتارتے ہوئے) یہ کہاں سے سناتم نے؟

سلمیٰ: اخبارمیں پڑھا ہے۔

حشرگلفشانی : اچھا، اچھاجھوٹ گھڑا ہے تم نے۔ شاوش اے بھئی۔

شاہانہ: اس گھر کے بچے کب سے خلائی مخلوق کا پوچھ ر ہے ہیں مگرجواب میں کوئی لائی لگ مخلوق کی بات کرتا ہے، کوئی کنڈے سے بجلی چُرانے کی اور کوئی میڈیا کے کینسرکی۔

بلال: اچھاامی ! آپ یہ بتا دیں کہ خلائی مخلوق کو انگلش میں کیا کہتے ہیں ؟

سلمیٰ: کچھ بھی نہیں کہتے بیٹا! نہ انگلش میں انہیں کچھ کہہ سکتے ہیں، نہ اردو میں ۔ آپ میرا سر نہ کھاﺅ، ابو سے پوچھو۔

انتظارعلی: مجھ سے کچھ نہ پوچھنا بھائی، میں سرکاری ملازم ہوں ۔ اپنے دادا سے پوچھو (اونچی آوازمیں ) انہیں خلائی مخلوق کا بتائیں اباجی!

حشرگلفشانی: ارے جس چیز کا یہاں وجود ہی نہیں ہے، میں اس کے بارے میں انہیں کیا بتاﺅں ؟

شاہانہ: یا اللہ! اس گھر کے بڑوں کا جنرل نالج کتنا کمزور ہے۔ ایک مخلوق کا اتنا چرچا ہے اور یہ اپنے بچوں کو اس کے بارے میں ذرا بھی نہیں بتا پا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).