حافظ سعید کی گرفتاری کے فوائد


حافظ سعید ٹیرر فنانسنگ کرتے ہیں، یا خدا یہی سننا باقی رہ گیا تھا‘، جی ہاں، سانحہ ساہیوال سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے محکمہ انسداد دہشت گردی کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے، بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں حافظ سعید اور عبدالرحمان مکی سمیت تیرہ رہنماوں پرانسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے دو درجن سے زائد مقدمات درج کئے گئے تھے۔

آپ لبرل ہیں اور ان الزامات کو درست سمجھتے ہیں تو پھرمجھے بھی سمجھائیے تاکہ میں بھی اپنے کچھ تصورات نئے پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکوں کہ میں نے پروفیسر حافظ محمد سعید کو متعدد مواقع پر سنا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی بات کی اور واضح کیا کہ وہاں بھی مقابلہ بھارتی افواج کے ساتھ ہے، نہتے عوام کے ساتھ نہیں۔ میں نے بار بار ان کے منہ سے سنا کہ پاکستان کے اندر ’جہاد‘ حرام ہے کہ یہ دارالسلام ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر آزادی کامنتظر ایک دارالحرب۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگا رہا ہوں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان جاتنے ہیں کہ پاکستان اور کشمیر کے عوام مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی ظلم و ستم پر سخت دل گرفتہ رہتے ہیں لہذا جب بھی مقتدر حلقے خود پاکستان بچانے نکلتے ہیں یا اس مقصد کی خاطر کوئی سیاستدان لانچ کرتے ہیں تو وہ پرانوں پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا ہی الزام عائد کرتا ہے تاکہ عوام پرانے سیاستدانوں پر تُھو تُھو کرتے ہوئے آسانی سے مسترد کر سکیں۔

جیسے کہا گیا کہ محترمہ فاطمہ جناح بھارت کی ایجنٹ تھیں، میں خود پوسٹ ضیاء الحق پیریڈ میں بہت دیر تک بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی بجائے ہندوستان کی وفادار سمجھتا رہا، پھر بے نظیر بھٹو شہید کے بیٹے بلاول نے نواز شریف کو کشمیر کے انتخابات میں مودی کا یار کہا اور خان صاحب کی تو بات ہی رہنے دیں، نہوں نے ہر الزام کی طرح اپنے ہر مخالف پر یہ الزام بھی لگایا اور ان کے پیروکاروں نے اس کا خوب بینڈ بجایا۔

اوہ! سوال کچھ اور تھا کہ اگر حافظ سعید ٹیرر فنانسنگ کرتے ہیں تو کیا نئے پاکستان کے نصاب میں اب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سمجھنا ہو گا کیونکہ میری نظر میں جہاد کشمیر کی حافظ سعید سے بڑی کوئی دوسری علامت موجود نہیں، میں جو چند روز قبل وانی شہید کی تیسری برسی پر افسردہ افسردہ پھر رہا تھا مجھے خود کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ کوئی شہید وغیرہ نہیں تھا بلکہ ایک دہشت گرد تھا جس کی فنانسنگ حافظ سعید جیسے منی لانڈرر کرتے تھے۔ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان کے شریف اور زرداری خاندان سے تعلق رکھنے والے تمام مخالف منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔

اب یہی الزام حافظ سعید اور عبدالرحمان مکی پر بھی لگ گیا ہے تو کیا میں یہ سمجھوں کہ منی لانڈرنگ بھی مقدس ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے بہت برس پہلے میں نے دنیا کی سب سے مقدس سمگلنگ کے بارے میں جانا تھا یہ سمگلنگ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی آخری آسمانی کتاب قرآن پاک کی تھی اور سوویت یونین میں کی جاتی تھی کیونکہ وہاں مذہب باالخصوص اسلام پر مکمل پابندی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بہت کچھ نیا پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے مگر یہاں اس سے بھی بڑی ضرورت یہ ہے کہ مجھے عشروں سے جو کچھ پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے میں اسے Unlearn کر سکوں، مجھے یہی کام جمہوریت کی تشریحات میں بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

حافظ سعید پرویز مشرف کے دور میں بھی اسی طرح زیر عتاب تھے جس طرح اب ہیں، ان کے لئے کافی ملتا جلتا ماحول تھا حالانکہ حافظ صاحب نے پراکسی وار میں ا ہم کردارادا کیا ہے۔ جب ہمارے حمید گل جیسے بڑے بڑے لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے نظریات کی برینڈنگ کرتے تھے تو حافظ صاحب کے جمع کئے ہوئے فرزندان توحید جوق در جوق مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوتے تھے۔ جہادی سروں کے لئے جہلم، چکوال، منڈی بہاوالدین سے ساہیوال، ملتان اور ڈیرہ غازی تک کے علاقے بہت زرخیز رہے ہیں۔ میں نے حافظ سعید کو ان علاقوں کے دیہات میں شہیدوں کے غائبانہ جنازے پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ ان میں اتنے مصروف ہوتے تھے کہ ایک دن میں دو،دو اور تین، تین جنازے بھی پڑھا دیتے تھے۔

حافظ سعید کی خدمات اس وقت بھی نمایاں رہیں جب ایک چینل کے اینکر نے اپنے والد کے راستے پر چلنے کی کوشش کی اگرچہ کراچی کے ایک محب وطن گروہ نے اس اینکر کو سبق سکھا دیا تھا مگر لگتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد اب وہ پھر اپنا سبق بھول رہا ہے۔ یاد تازہ کر لوں کہ اس دور میں بھی حافظ سعید نے اس چینل کے خلاف جلسے تک کئے حالانکہ حافظ صاحب کو بہت سارے لوگوں نے کہا کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے مگر وہ بہتر جانتے تھے کہ ان کا کام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

مجھے تھوڑا سا اپ ڈیٹ رہنے کی ضرورت ہے کہ حافظ سعید اس وقت گرفتار کئے گئے ہیں جب وزیراعظم عمران خان اہم ریاستی عمائدین کے ساتھ امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ مجھے ایک محب وطن پاکستانی صحافی کے طور پر مثبت رپورٹنگ کرنی چاہیے کہ ٹرمپ سے ملاقات میں حافظ سعید کی ان الزامات میں گرفتاری سے بہتر کیا تحفہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب ملاقات میں ہمارے وزیراعظم عمران خان پر ہرگز غصے نہیں ہوں گے بلکہ انہیں دیکھ کر نہ صرف مسکرائیں گے، جپھی بھی ہو گی اور عین ممکن ہے کہ کوئی پپی بھی ہوجائے۔ مان لیجئے، یہ پاک امریکا تعلقات میں ایک نیا باب ہو گا۔

اس سے پہلے والے ابواب میں بہت ساری تلخیاں ہیں جیسے اپنے تئیں ایک سیاسی جمہوری حکمران بننے کے شوقین نے امریکی صدر کلنٹن کی فون کالز تک کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر دئیے تھے اور پھر جناب پرویز مشرف کی حکومت نے افغانستان کی جنگ میں اپنے اڈے پیش کر کے اور ہزاروں افغانوں کو مروا کے بمشکل ان تعلقات کو نارمل کیا تھا۔ ٹرمپ بھی بادشاہ آدمی ہیں اور وہ اس گرفتاری سے خوش ہو کر جناب عمران خان کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی خواہش بھی پوری کروا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جناب عمران خان کی حکومت اس ایک گرفتاری سے ملک و قوم کے لئے اتنے فوائد سمیٹے گی کہ ماضی میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔

اضافی یقین یہ ہے کہ اگر ’ڈُو مور‘ کا مطالبہ ہوا تو حافظ سعید کا ساہیوال کے نزدیک جی ٹی روڈ پر ایک مقابلہ بھی کروایا جا سکتا ہے جس کے بعد عین ممکن ہے کہ عمران خان کا یہ دورہ اس گرفتاری کے بعد تیسرے درجے سے بدل کر پہلے درجے کا بن جائے کہ قیام پاکستا ن سے لے کر اب تک پہلے درجے امریکی دورے صرف ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے حصے میں ہی آئے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے لئے عمران خان کسی طور بھی جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاٗء الحق سے کم نہیں ہیں بلکہ ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ بڑھ کے ہی ثابت ہو ں گے۔

پاکستان زندہ باد۔ عمران خان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).