تربیت کے بغیر تعلیم۔ نتیجہ ایک منتشر معاشرہ


تربیت تعلیم سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ تعلیم اگر انسان کو شعور بخشتی ہے تو تربیت اس شعور کا مثبت استعمال سکھاتی ہے۔ تعلیم اگر سوال اٹھانا سکھاتی ہے تو تربیت جواب دینے کا سلیقہ اور آداب سکھاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ تعلیم یافتہ افراد اگر ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو تربیت یافتہ افراد ایک منظم اور مہذب معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔

آج جب ہم اپنے ابتر معاشرے کا موازنہ مہذب معاشروں سے کرتے ہیں تو جو واضح فرق نظر آتا ہے وہ تعلیم کی بجائے تربیت کا ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگ تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے روزمرہ زندگی میں جس جاہلانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔

باقی سب چھوڑیں اور سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کی مثال لے لیں۔ تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ تہذیب سے ہمارا کتنا تعلق ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2016 میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق ٹریفک کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی 180 ممالک کی فہرست میں ہمارا نمبر 80 واں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہر ایک لاکھ افراد میں سے 14.2 افراد کی موت ٹریفک حادثات میں ہوتی ہے جبکہ ہر ایک لاکھ گاڑیوں میں سے 283.9 گاڑیاں حادثات کا شکار بنتی ہیں۔ اگر ان اعداد و شمار کا موازنہ قریبی ملک بنگلہ دیش سے کریں تو بنگلہ دیش اسی فہرست میں ہم سے بہتر 74 ویں نمبر پر نظر آتا ہے۔

جس کی حادثاتی اموات کی شرح ہر ایک لاکھ افراد میں 13.6 ہے جو کہ پاکستان سے کم ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سویڈن اور ناروے ٹریفک حادثات کی عالمی فہرست میں سب سے کم شرح اموات کے ساتھ پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ دونوں ممالک کی حادثاتی شرح اموات ہر ایک لاکھ افراد میں صرف 2.7 ہے جو کہ پاکستان کی شرح اموات سے 525 % کم ہے۔

روزنامہ ڈان میں 13 فروری 2019 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018 میں 36000 افراد ٹریفک حادثات کے نتیجے میں لقمہ اجل بنے۔ یہ اعدادو شمار پریشان کر دینے والے ہیں۔ ہم ہر روز تقریباً 100 جانیں ٹریفک حادثات میں گنوا رہے ہیں۔ اگر اس کے مقابلے میں ہم دہشت گردی میں ہوئی اموات کا جائزہ لیں تو ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل انڈیکس کے مطابق 2010 سے 2018 کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 18432 ہے جو کہ صرف ایک سال میں ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات سے بھی آدھی ہے۔

تو کیا ہم سڑکوں پر ناچتی موت کے تدارک کے لئے سنجیدہ ہیں؟ یقیناً نہیں کیونکہ اب تک ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہی آیا۔ آج بھی اس ملک میں گاڑی لے کر روڈ پر آنا پزا آرڈر کرنے سے بھی آسان ہے کہ وہاں پر بھی نام، نمبر اور ایڈریس لکھوانا پڑتا ہے۔

تعلیم ہمیں ٹریفک قوانین کا پابند بنا سکی لیکن تربیت ضرور ایسا کر سکتی ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے موٹروے پولیس سے 3 یا 4 ہفتے کا ڈرائیونگ کورس مکمل کر کے ڈرائیونگ سیکھی ہے وہ سڑک پر دوسروں سے بہتر گاڑی چلاتے ہیں۔ ان میں برداشت کا رویہ دوسروں سے بہ نسبت زیادہ ہے کیونکہ ان کو دوسروں کے سڑک استعمال کرنے کے حق کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔

یہ تو صرف ایک شعبہ تھا۔ آپ معاشرے کے کسی شعبے کو لے لیں آپ کو ہر طرف ایک بدنظمی اور انتشار ملے گا باوجود یہ کہ اس شعبہ میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہی ہو گی۔ ہم نے شرح خواندگی بڑھانے پر تو توجہ دی لیکن تربیت کے عنصر کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ یقیناً گھر اولین تربیت گاہ تھے اور اس کے بعد سکول اور مسجد۔ آج بھی بہتر اخلاقیات اور آداب آپ کو ان بچوں میں نظر آئیں گے جن گھروں میں تربیت کا عمل دخل کسی حد تک موجود ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تربیت گاہ بطور ادارہ تباہ ہو چکی ہے۔

حکومت کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر ایسے پروگرام چلائے جا سکتے ہیں جو ہمیں اخلاقیات، برداشت اور دوسروں کے حق کا احترام کرنا سکھائیں۔ ہم آج اگر کوئی سنجیدہ لائحۂ عمل بناتے ہیں تو کم از کم 2 سے 3 نسلوں بعد شاید ہم بھی مہذب معاشروں کی صف میں شامل ہونے کے اہل سمجھے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).