مذہبی ریاستوں کی نئی دنیا


بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتا ہے لیکن کیا بھارت واقعی ایک سیکولر ریاست ہے؟ اس سوال پر نہ تو دلائل دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی بحث سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں۔ بھارت میں ہندووں کی اکثریت ہے اوریہ اکثریت چند سالوں یا عشروں کی بات نہیں بلکہ صدیوں سے یہ ہندو وں کا اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ ملکی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے نظام حکومت جو اور جیسا بھی رہا ہو لیکن ہندو ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں اور اپنے نظریات اور مذہب سے جڑے ہوئے بھی رہے ہیں۔

انگریز سے آزادی اور تقسیم کے بعد اگرچہ دنیاداری کے لیے بھارت کے راہنماؤں نے سیکولر چولہ پہن لیالیکن اپنا اصل رنگ اورروپ چھپائے نہ چھپا سکے۔ گزشتہ دس برسوں میں بھارت میں کافی تبدیلیاں آئیں ہیں اور سیکولر ازم کا چولہ ہواوں میں اڑنے لگا ہے جس کی وجہ سے اندر موجود ہندو رنگ نمایاں ہونے لگ گیا ہے۔ مسلسل دوسرے الیکشن میں ہندو انتہا پسند جماعت کا حکومت میں آنا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اب بھارت کا آنے والے دنوں میں کیا رنگ اور ڈھنگ ہو گا۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا اس نئی صدی میں صرف بھارت ہی اپنے مصنوعی رنگ ڈھنگ سے آزاد ہوا ہے یا دنیا بھر میں مذہب ایک بار پھر سب سے ہاٹ ٹاپک بن کر سامنے آنے کی تیاری ہے؟ اور لوگ بل واسطہ اور بلا واسطہ مذہب کے میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ آپ شاید متفق نہیں کیونکہ جدید دنیا میں مذہب کو دقیانوسی اور فرسودہ سوچ کے حامل لوگوں کا شغل مانا جانے کا رواج اب زور پکڑنے کا تاثر ہے لیکن یہ تاثر اپنے اندر کتنا مضبوط ہے یہ جاننے کی شدید ضرورت ہے۔

آپ دنیا کا نقشہ اور مذاہب کی تفصیل لے کر بیٹھتے ہیں تو بہت سے حیرت انگیز انکشافات آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست اب بڑی حد تک مذہبی سرگرمیوں میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ انتہا پسندوں کی دوسری حکومت قائم ہونے کے بعد سیکولر ریاست کا صرف ڈھونگ ہی باقی بچے گا۔ بھارت کا پڑوسی پاکستان تو اپنے قیام سے ہی ایک مسلمان ملک کے طور پر اپنی پہچان ظاہر کرتا ہے اور یہاں کے رہنے والے اسلام کے نام پر بننے والی واحد ریاست کے دعویدے دار ہیں۔

اس سے آگے موجود افغانستان نے جتنی شہرت اپنے اسلام اور جہاد کے حوالے سے کمائی ہے، کسی اور ملک کے حصے میں اس کا چوتھائی حصہ بھی نہیں آیا۔ ساتھ موجود ایران تاریخ کی عظیم ریاست فارس کا نیا چہرہ ہے اور انقلاب ایران کے بعد ایک مکمل شیعہ ریاست میں بدل چکا ہے۔ اپنے نظریات کے پھیلاؤ میں ہمہ تن مصروف اس ملک کے بہت سے مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ عیسائیوں سے بھی روابط کچھ اچھے نہیں چل رہے۔ خلیجی ریاستیں اگرچہ کچھ ڈانواڈول کی کیفیت میں ہیں لیکن عربستان میں سعودیہ عرب کسی ابہام کا شکار نہیں اور ایک مکمل اسلامی ملک کے طور پر دنیا اسلام کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ یہیں پاس میں اسرائیل بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جو مذہب کے نام پر قائم ہوا اور اب اس کی شناخت ایک انتہا پسند مذہبی ملک کی سی ہے۔

یورپ کی طرف نکل چلیں یا امریکہ چلیں تو بہت سے ممالک عیسائی اکثریت ہونے کے باوجود سیکولر یا جمہوری ممالک کے طور پر اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ ستر کی دھائی تک ان ممالک کی بات کسی قدر مانی جا سکتی تھی لیکن موجود دور میں ان ممالک میں اسلام کے خلاف لوگوں میں بہت سخت رویہ دیکھنے کو ملا ہے۔ توہین رسالت اور اسلام دشمن قوانین کی تشکیل، احکام اسلام پر عمل درآمد کرنے والے مسلمانوں کی زندگی میں بڑھتی مشکلات نے ایک طرف جہاں ان کے سیکولر ازم اور جمہوریت کے کھوکھلے دعوے کی حقیقت ہماری سامنے پیش کی ہے وہیں لوگوں میں اسلام کے بارے شعور بھی بہت تیزی سے پیدا ہو رہا ہے۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دنیا بھر میں پر امن ترین ممالک سمجھے جاتے تھے لیکن حالیہ پے در پے واقعات نے یہ بتا دیا ہے کہ بظاہر پر سکون نظر آنے والے اس پانی کی تہہ میں کسی قدر ہلچل ضرور ہے لیکن یہ ہلچل کب کتنے بڑے کسی طوفان میں تبدیل ہو اس بارے کچھ کہنا ابھی بعید از قیاس تو ہے لیکن اس حقیقت سے نظریں چرانا بھی خلاف حقیقت رویہ ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے ایک سے دو عشروں میں دنیا کے یہ پر امن خطے بھی مذاہب کی کسی نہ کسی لڑائی کا میدان ہوں گے اور یہاں پر مذہب کے نام پر تقسیم اور تفریق زندگی کا حصہ ہو گی۔ اب تو دنیا کے پرامن ترین سمجھنے جانے والے بدھ بھگشوبھی اگر مذہب کا نام لے کر قتل و غارت پر اتر آئے ہیں اوران کی نفرت کے زیر اثر ایک بڑی آبادی کو نہ صرف گھر بار چھوڑنے پڑے بلکہ دنیا بھی چھوڑنی پڑی تو ایسے میں کسی اور کے بارے کیا کہا جا سکتا ہے۔

اگرآپ ایسا مانتے ہیں کہ انسانیت کو ایک مذہب ماننے والے اپنی اسلام دشمنی پر اس لیے اڑے ہوئے ہیں کہ ان کے نزدیک تمام دوسرے مذاہب کچھ نہیں تو آپ غلط ہیں کیونکہ یہ سوچ بھی تو ایک نظریہ یا مذہب ہی ہے۔ الحاد بھی ایک مذہب کے طور پر ہی قبول کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کا نقشہ دیکھیں تو پوری دنیا میں موجود تمام مذاہب ایک دوسرے سے نہ صرف برسرپیکار ہیں بلکہ ممالک اور حکومتوں پر قبضے کے لیے کوشاں بھی ہیں تاکہ اپنی قوت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں دنیا یونی پولر، بائی پولر، سرد جنگ، گرم جنگ سے آگے بڑھتے ہوئے اب مذہبی ریاستوں کی طرف جا رہی ہے اور بہت جلد بہت سے ممالک باقاعدہ اپنے انداز و اطور میں مذہبی ریاست بن چکے ہوں گے۔ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے حق میں یا خلاف بنائے جانے والے قوانین بظاہر انسانیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں موجود شدت پسندی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یورپی ممالک میں پردے اور حجاب کے خلاف قوانین آنے والے دنوں میں لوگوں میں مذہب کے بارے شدت پسندانہ خیالات کا اشارہ کرتے ہیں۔

آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مذہب کو کسی بھی شخص کا ذاتی فعل قرار دینے والے روشن خیال، لبرل اور سیکولر افراد بھی جب ایسے قوانین تشکیل دینے لگیں جس سے کسی دوسرے کی نہ صرف دل آزاری ہو بلکہ اس کے مذہبی جذبات بھی متاثر ہوں تو کیا یہ عالمی منظر نامے پر مذہب کے شدت پسندانہ رنگوں کے بڑھتے اثرات کا مظہر نہیں ہو گا؟ کیا تمام مذاہب کے ماننے والوں کے شدت پسندانہ رویوں کی وجہ سے عالمی گاؤں مستقبل میں مذہبی تقسیم کا شکار ہو تے ہوئے کسی نئے بحران کا سامنا کرنے کو تیار ہے؟

اور کیا واقعی مذہبی ریاستوں کی نئی دنیا تشکیل دی جا رہی ہے جس میں ہر فرد انفرادی طور پر اور معاشرہ مجموعی طور پر اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کو مستقبل میں ماضی کی طرح مسلسل جنگوں کا سامنا رہے گا کیونکہ مذہبی ریاستوں کا سب سے پہلا اور پسندیدہ کام جنگ ہوتا ہے اور مذہبی جنگیں مخالف کے خاتمے تک ختم نہیں ہوتیں۔ اپنی شدت پسندی کی وجہ سے مستقبل کی مذہبی دنیا میں سب کو خوش آمدید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).