با ادب با نصیب


آج بیگ صاحب کی زندگی کا بہت بڑا دن تھا، کیوں کہ آج ان کے نئے دفتر کا افتتاح تھا۔ دفتر میں ہی عملے کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر جب ملازمین اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے توبیگ صاحب بھی اپنے ماتحت کو چند ہدایات دے کر اپنے کمرے میں چلے آئے۔ کمرے کے ایک جانب لگی میز کی کرسی پر بیٹھ کر وہ ایک فائل کا مطالعہ کرنے میں خود کو مگن کرنے کی کوشش کرنے لگے، لیکن ان کا ذہن کسی اور بات کو سوچ رہا تھا۔ انہوں نے فائل بند کی اور سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکا کر ایک پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ خیالات کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔

احتشام اور ظفر، دونوں اپنی متضاد صفات کے لحاظ سے جماعت کے بڑے نمایاں طالب علم تھے۔ ظفر کا شمار ذہین ترین طلبا میں ہوتا تھا۔ بغیر جان مارے ہر امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے پوزیشن لینا اس کے لیے معمولی کام تھ، جب کہ احتشام اسکول کے کم زور ترین طلبا میں سے ایک تھا۔ خون پسینہ ایک کرنے کے بعد بھی پوزیشن لینا تو درکنار، پاس بھی نہیں ہوپاتا تھا۔ ہر مرتبہ کسی نہ کسی مضمون میں اس کا فیل ہوجانا ایک لازمی سی بات تھی۔

لیکن ایک بات ایسی تھی جس کی وجہ سے احتشام کے اساتذہ اس کے لیے اپنے دل میں کافی نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ تھی اس کی خوش خلقی، اساتذہ کی خدمت کرنا، ان کی دعائیں لینا، ان کی فرماں برداری کرنا، یہ وہ خصوصیات تھی جسے دیکھ کر دوسرے ساتھیوں کو بھی احتشام پر رشک آتا تھ، جب کہ ظفر ان تمام اچھائیوں سے محروم ایک لا ابالی سا لڑکا تھا۔ استادوں کو تنگ کرنا، اسکول کی چیزوں کا نقصان کرنا، دوسرے طلبہ کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنا، اس کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ یہی نہیں، احتشام کی خوبیوں کو دیکھ کر ظفر کو اس سے خدا واسطے کا بیر تھا، وہ ہر وقت اسے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچانے کی تاک میں رہتا، لیکن ابھی تک ظفر صرف اپنی غیر معمولی کارکردگی کے سبب اسکول میں ٹکا ہوا تھا، ورنہ ایسے طلبہ کی اسکول میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ احتشام اور ظفر اب میٹرک میں پہنچ چکے تھے، ان پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ حکومت بھی نئی آگئی تھی، اسکول کی عمارتوں میں بھی اضافہ ہوچکا تھا۔ کچھ نئے استاد اور طالب علم بھی داخل ہوچکے تھے۔ اگر کچھ نہیں بدلا تھا وہ وہ تھیں احتشام اور ظفر کی طبیعتیں، دونوں کے مزاج بالکل ویسے ہی تھے۔

پھر ایک دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کے باعث دونوں کی زندگی میں انقلاب آگیا، ہوا یوں کہ سالانہ امتحانات سے قبل نویں اور دسویں جماعتوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوگئی۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ وقفے کے دوران میں ہاکی کھیلتے ہوئے نویں کے طالب علم راحیل نے ظفر کو ڈاج دیتے ہوئے گیند اس کی گرفت سے نکال لی۔ جس کے نتیجے میں ظفر لڑکھڑا کر گر گیا۔ راحیل نے کھیل سے ساری توجہ ہٹا کر خود ظفر کو اٹھایا اور معافی مانگی، ۔

لیکن ظفر نے بجائے صلح صفائی کے ایک زور دار چانٹا راحیل کے منہ پر دے مارا۔ راحیل حیرت سے ظفر کو دیکھنے لگا۔ پھر یک دم اس کی بھی آنکھیں شعلہ اگلنے لگیں۔ اس نے ایک زور دار مکا ظفر کے رسید کیا۔ اس طرح لڑائی بڑھتے بڑھتے اتنی خطرناک ہوگئی کہ دونوں جماعتوں کے گروپ بن گئے اور کھیل کا میدان، میدان جنگ بن گیا۔ اسکول کے کلرک نے ہیڈ ماسٹر فہیم الدین صاحب کو اس ہنگامے کی اطلاع دی تو وہ بھاگے بھاگے میدان کی طرف پہنچے۔

کیا دیکھتے ہیں کہ راحیل اور ظفر بری طرح دست و گریباں ہیں اور ان کے ہم جماعت اپنے اپنے ساتھی کی فتح کے نعرے لگا رہے ہیں۔ دونوں کے حلیے بالکل خراب ہوچکے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب دونوں کو چھڑوانے کے لیے آگے بڑھے، لیکن طیش سے بھرے ہوئے ظفر نے اس زور کا دھکا ہیڈ ماسٹر کو دیا کہ وہ پیچھے کی طرف تیزی سے گرنے لگے، مگر عین موقع پر احتشام نے انہیں سہارا دے دیا۔ وہ اسکول کے باغ میں بیٹھا ہوا تھا، ہیڈ ماسٹر صاحب کو اس طرح گھبراتے ہوئے دوڑتا دیکھ کر وہ بھی ان کے پیچھے دوڑ پڑا تھا۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے لڑکوں کی بے حسی اور اپنی اس قدر بے عزتی دیکھی تو فوری طور پر اسکول کے گارڈز کی مدد سے تمام لڑکوں کو اپنے آفس میں طلب کرلیا۔ پرنسپل صاحب نے جھگڑے کا پورا واقعہ سن کر ظفر کا نام اسکول سے خارج کردیا۔ باقی تمام لڑکوں کو سزا کے طور پر ایک ہفتہ اسکول آنے پر پابندی لگادی اور ساتھ ساتھ ان کے والدین کے نام خط جاری کردیے۔ اس کے بعد ماسٹر فہیم الدین صاحب نے وہ جملے کہے جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل تھے۔

”اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت اصل ہے، قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ ذہین فطین طالب علم بھی اگر اپنے بڑوں کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ ہمیشہ در د رکی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اس کی ڈگریاں اس کے کچھ کام نہیں آتی اس کے برعکس اگر غبی سے غبی طالب علم کے دل میں اگر اپنے بڑوں کی عزت و عظمت اور قدر و منزلت موجود ہے تو وہ وقتی طور پر تو ناکام ہوتا ہے لیکن آخر میں کامیابی اس کے ہی قدم چومتی ہے۔ “

پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ ظفر پی ایچ ڈی کے بعد بھی ملازمت کے حصول کے لیے طویل عرصے تک دھکے کھاتا رہا جبکہ احتشام اپنے اخلاق اور اپنے بڑوں کی دعاؤں کی بدولت ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ملک کے چوٹی کے تاجروں کی صف میں جا کھڑا ہوا۔

احتشام بیگ نے اذان کی آواز کے ساتھ یہ سب سوچتے ہوئے بے اختیار آنکھیں کھول دیں اور اپنے رب کے بے شمار انعامات کا شکر ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).