کچھ باتیں عظیم دانشور دوست ارشاد بھٹی کی


نوے کی دہائی میں مجھے پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر میں جاب کے لئے انٹرویو کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان کا ڈرائنگ روم اسلام آباد پہلے بھی دیکھ رکھا تھا لیکن اس بار یہاں بسنے کے ارادے لے کر آیا تھا۔ پی ٹی وی میں تو نوکری نہ ملی البتہ مستنصر جاوید صاحب کے قدموں میں جگہ ضرور مل گئی اور یوں اِس شہر میں پیر جمانے کا بہانہ مل گیا۔

کھڈا مارکیٹ اسلام آباد میں، جہاں میں رہائش پذیر تھا، وہاں اپارٹمنٹس کے نیچے گاڑیاں مرمت کرنے کی بہت ساری ورکشاپس تھیں۔ فلیٹ میں دو کمرے تھے، ایک میں، میں اور میرے شہر گجرات کے دوست حماد شاہ جی رہتے اور دوسرے میں منصور آفاق کے اسسٹنٹ نعیم نیازی کا قیام جو کہ میڈیا پروڈکشنز میں منصور آفاق جی کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کے کمرے میں ہر وقت فنکاروں کا جھرمٹ رہتا۔ نعیم نیازی کی بیٹھک میں شاعر، ادیب، صحافی، اداکار، گلوکار مطلب ہر قسم کا کچا پکا فنکار آنے لگا۔ ہماری شامیں سندر ہونے لگیں۔ کھانے کے بعد محفلیں جمتیں، سبھی اپنے فن کے نمونے پیش کرتے اور داد پاتے۔ یہاں منصور آفاق اور ارشاد امین جی کے علاوہ ہر کوئی اپنے کیریئر کی شروعات یعنی زندگی کی جدوجہد میں تھا۔ اسلام آباد میں اپنے اپنے فن کے دیے لے کر آنے والے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں اور شہروں کے یہ نگینے ابھی اپنی پہچان بنانے کی کوشش میں تھے۔ اس زمانے کی یاریاں ابھی تک قائم و دائم ہیں جن میں منصور آفاق، نعیم نیازی، ارشاد امین، مظہر برلاس، حضرت شام اور ارشاد بھٹی جیسی ہستیاں شامل ہیں۔

اُن دنوں نعیم نیازی کے کمرے میں مظہر برلاس کی آمد ہوئی اور پھریہ دبنگ شخصیت وہیں قبضہ جما کر بیٹھ گئی۔ موصوف اردو کے ایک روزنامے میں نوکری کرتے تھے اور جہاں تک پیسوں کا معاملہ ہے، یہ پیسے کو اور پیسہ انہیں کچھ نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے گاؤں سے دو جوڑوں میں رخصت ہو کر آئے تھے اور یہی متاع ان کی کل کائنات تھی۔ مونچھوں نے ابھی بل کھانا نہیں سیکھا تھا بلکہ اپنے مالک کی پتلی مالی حالت کا مان رکھے ہوئے تھیں۔ پی ٹی سی ایل فون کی سہولت ہمارے کمرے میں موجود تھی تو ان کی زیادہ تر گزراوقات یہیں پر ہونے لگی۔ فون کر کر کے اپنے دوست یار بلانے لگے۔ آواز بالکل امریش پوری سے جا کے ٹکراتی تھی۔ چنانچہ اس بھاری بھرکم آواز کا جادو یہ کہہ کر مجھ غریب پر ہی چلا دیا ”پاشا! چل میرے لئے چائے بنا کر لا“۔ میں روبوٹ کی مانند اس حکم کو بجا لایا۔ میدان کھلا دیکھ کر انہوں نے اپنے ایک رشتہ دار حضرت شام کو بھی بلا لیا۔ شام نے بھی یہاں آ کر نوکری کی تلاش شروع کردی۔ فلیٹ میں چہل پہل بڑھ گئی، شام ڈھلے میرے گھر میلہ لگنا شروع ہو گیا۔ ہر قسم کی شاعری، موسیقی اور ادب پر گفتگوہوتی، تاش کی محفلیں جمتیں، انتاکشری کھیلا جاتا۔ اب یہ فلیٹ فنکاروں کا نشیمن کہلانے لگا۔

اتنے بھرے پُرے ڈیرے پر مزید کوئی گنجائش تو نہ تھی لیکن اس بھان متی کے کنبے میں ایک عجیب سا اضافہ دیکھنے میں آیاجب ارشاد بھٹی نے قدم رنجہ فرمایا۔ مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ اِن صاحب کو کون اس نشیمن تک لایا۔ بہرحال یہ بھی اپنی طرز کے عجب فُقرے تھے۔ کسی نے اپنا سوٹ استری کر کے کھونٹی پر لٹکایا اور خود واش روم میں غسل فرمانے گیا، اور ادھر بھٹی صاحب نیا استری شدہ سوٹ پہن کر چمپت ہوگئے۔ دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو۔ پہلے پہل تو ہم سمجھے کہ یہ کوئی ایسا عذاب ہیں جس کی وعید مقدس کتابوں میں نہیں دی گئی۔ گفتگو بہت اچھی کرتے تھے اور بات پہ بات شعر بھی سنانے لگے۔

شام کے کھانے کے بعد فلیٹ کے ساتھی معمول کی واک کے لئے بلیو ایریا اسلام آباد کے پلازوں والی لین کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے کمپلیکس تک جاتے اور پھر واپس مڑتے۔ باتوں باتوں میں سبھی اپنے اپنے خواب، خیال اور ارادے شیئر کرتے۔ ارشاد بھٹی نے ایک رات مجھے روک کر سڑک کی دوسری جانب بنی ہوئی خوبصورت بنگلہ نما کوٹھیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”پاشا صاحب وہ وقت آنے والا ہے جب میں ان میں سے ایک گھر کا مالک بنوں گا اور لش پش کرتی گاڑی میں پیاری سی بیگم کو پہلو میں بٹھائے تیرے پاس سے شُوں کر کے گزر جاؤں گا“۔ ہم سب نے بھٹی کے اس دعوے کوحیرت کے ساتھ سنا اور پھر ایک قہقہے کی نذر کر دیا۔

جب تک ارشاد بھٹی ہمارے درمیان رہا کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتا پایا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنے اخراجات ادا نہیں کر پاتا تھا۔ آخر تنگ آ کر اسے فلیٹ سے نکال باہر کیا گیا۔ یہ بدنما عمل بھی میرے ہاتھوں کروایا گیا۔ جاتے ہوئے ارشاد بھٹی نے مجھ سے کہا ایک آخری نیکی کیجئے، مجھے پچاس روپے عنایت کردیں۔ میں نے فوراً دے کر جان چھڑائی۔ وہ کہیں اور شفٹ ہوگیا اور کبھی کبھار اس کے بارے میں خبر ملتی کہ کچھ بہتر کام کرنے لگا ہے۔ کسی اخبار میں پروف ریڈر وغیرہ بھرتی ہو گیا اور فارغ وقت میں ٹیوشن پڑھانے لگا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ کھڈا مارکیٹ کا وہ فلیٹ ماضی کا قصہ بن گیا، سبھی پرندے اپنے لئے بہتر رزق اور آشیانوں کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے۔ میری نوکری کچھ آسودہ حال ہوئی تو اپنے بیوی بچوں کو اسلام آباد بلا لیا۔ کبھی پرانے ہم نشینوں سے کہیں ملاقات ہوتی تو ان کی ترقیاں دیکھ کر دل خوش ہوتا۔ مظہر برلاس سرکاری ٹی وی کا اینکر بن گیا تھا۔ سلیم شہزاد سرائیکی ٹی وی پر ادبی پروگرام کرنے لگا۔ نعیم نیازی نے لاہور میں اپنا پروڈکشن ہاؤس کھول لیا اور کئی بار بڑے ستاروں والے ہوٹلوں میں کسی میڈیکل کانفرنس کی گالا نائٹ میں اس سے ملاقات ہوجاتی۔ حضرت شام ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں کری ایٹو لکھاری بن گئے۔

سب سے بڑی خبر ارشاد بھٹی کے بارے میں ملی۔ محترم نے اپنے اخبار کی ایک ساتھی لڑکی سے شادی کرلی جو کھاتے پیتے گھرانے سے تھی۔ بیگم کے پاس گاڑی بھی تھی اور اسلام آباد میں گھر بھی، سو بھٹی صاحب کا پہلا خواب تو ایک ہی جست میں پورا ہوا۔ اخباری دنیا میں ایڈیٹر بھی بنے اور پھر ہوتے ہوتے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب کے میڈیا مینجر قرار پائے۔ یہ خبر بہت بڑی تھی، اور واقعی اس زمانے کی بریکنگ نیوز ثابت ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments