خودکشی


انسانی زندگی میں کوئی مقام ایسا آتا ہوگا جب ہمیں خود لگتا ہو کہ زندگی کو تھم جانا چاہیے، کوئی ایسا حصہ یا کوئی ایسی عمر۔ کوئی تو مقام ہو جہاں دل کہے کہ یہیں تک آنا تھا، اتنا ہی سفر طے کرنا تھا اور اسی کے لیے چلے تھے۔ ہماری دنیا ایسی نہیں جہاں آپ خودکشی کے موضوع پر کسی سے دل کھول کر بات کرلیجیے، جب بھی آپ اس کا ذکر کرتے ہیں تو آپ کے عزیز ایک مصنوعی گھبراہٹ یا غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی دنیا میں کسی سے اس بارے میں کچھ کہنا اپنی موت کی خواہش کی تذلیل کرانا ہے، ان سے یہ پوچھنا کہ زندگی کیا مختصر نہیں ہوسکتی یا پھر یہ جو دنیا وی حسن کے اتنے ترانے گائے جاتے ہیں، ایسی خوبصورت ندیوں، پہاڑوں، پرندوں اور رنگینیوں سے بھری ہوئی دنیا چھوڑ کر کوئی کیوں نہیں جاسکتا ہے، انہیں یہ سمجھانا ممکن نہیں ہے۔

جہاں تک میرا سوال ہے، میں زندگی کے متعلق ویسے نہیں سوچتا جیسا مذہبی صحائف نے مجھے بتایا تھا یعنی یہ کوئی نعمت ہے یا ایسی قدر، جسے سنبھال کر رکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ میرے نزدیک زندگی اور موت دونوں کا حق انسان کو حاصل ہونا چاہیے، زندگی کا حق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، یہ ایک غیر ممکن بات ہے کہ آپ جب چاہیں، جہاں اور جس ماحول میں چاہیں پیدا ہوسکیں تو اس حق کو کیوں چھین لیا جائے کہ آپ جب اور جہاں چاہیں، مرجائیں، جس طریقے سے چاہیں، آہستہ آہستہ یا پھر تیزی کے ساتھ۔

زہر کھاکر، پھانسی کے پھندے سے جھول کر، کسی اونچی عمارت سے کود کر یا پھر اپنے ہاتھ کی پھڑکتی ہوئی نس کاٹ کر۔ مجھے اب تک کے اپنے غور و فکر میں موت نے جس بات سے ڈرائے رکھا ہے، وہ دراصل میرا وہ شعوری دماغ ہوسکتا ہے، جو تکلیف کی شدت سے خوف کھاتا ہے، سانس کے تھم جانے، دل کے ڈوبنے، نسوں اور کھال میں پیدا ہونے والی ایک تیز چھبن اور کرب سے وہ مجھے ڈراتا رہتا ہے۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ موت انسانی زندگی کی طرح ایک غیر تکلیف دہ عمل کیوں نہیں، کیوں اس کے اور میرے درمیان چیخ اور تڑپ کی وہ لمبی کھائی موجود ہے جسے دور کرنے سے پہلے اتنا سوچنا پڑتا ہے۔

ایک روز میں یہی سوچ رہا تھا اور میں نے اپنے گوگل اسسٹنٹ سے اس بارے میں دریافت کیا کہ اگر میں خودکشی کا کوئی بہتر طریقہ اپنانا چاہوں تو وہ کیا ہوسکتا ہے، جواب میں اس نے مجھ سے بالکل کسی رشتہ دار کی طرح چمکارتے ہوئے کہا کہ ’یو آر نوٹ الون اور میری آنکھوں کے سامنے بچھی چمکدار اور سفید چادر پر ایک نمبر ابھر آیا جو کسی آسرا فاؤنڈیشن کا تھا۔ میں نے فون کو بیزاری کے ساتھ ایک جانب رکھ دیا۔ آسرا، انسانوں کو مسکینیت اور ترحم کے اسی کھوکھلے اور غیر ضروری جذبے کی یاد دلانے والا لفظ ہے، جیسا کہ ہمارا خدا ہے، وہ ہم پر رحم کرتا ہے، یہ پوچھے بغیر کہ ہمیں اس کے رحم کی خواہش ہے بھی یا نہیں۔ ماں سے ستر درجے زیادہ چاہنے والا ایک ماورائی خدا، ہم سب کی گودوں میں لیٹا انگوٹھا چوس رہا ہے، اور ہم اپنے انتہائی مایوسی کے عالموں میں اسے دیکھ کر جی بہلالیتے ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک انسان خودکشی کیوں نہ کرے۔ کیوں ہم اسے یہ باور کرائیں یا سمجھائیں کہ زندگی کو گنوانا حماقت ہے اور زندگی کو گزارنا اور جینا بہت بڑی جرات کا کام۔ ذلتوں سے پٹی ہوئی، زخموں سے سجی ہوئی زندگی، جس کی خواہشوں تو کیا ضرورتوں کی بھی کوئی اوقات نہیں۔ سانسوں تک کا کرایہ مانگنے والی بے رحم اور سفاک زندگی، ڈرانے اور دھمکانے والی، اپنی مرضی کی جانب سے منہ موڑ کر سونے والی ایسی فرسودہ زندگیوں کے ساتھ ہم کیا کرتے ہیں۔

ہم جی بہلانے کے لیے شور مچاتے ہیں، جھوٹ لکھتے ہیں، آسمانوں کی طرف دیکھتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ انسانی میں آج تک نہ آسمانوں کی طرف دیکھنے سے کچھ بدلا ہے، نہ دعائیں مانگنے سے۔ شور مچانا اور جھوٹ بولنا تھوڑی دیر کے لیے کارآمد ضرور ہوتا ہے، مگر کچھ دماغ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ان سے بھی بیزار ہونے لگتے ہیں۔ ایک روز کی بات ہے، مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو اپنی مرضی سے زندگی گزار رہے ہیں، وہ کام کررہے ہیں جو آپ کا دل کہتا ہے، آپ ہر طرح سے خود کو مطمئن رکھتے ہیں، جہاں تک ہو اپنی ذات کے سچے اظہار میں کمی نہیں کرتے، پھر موت کی ایسی خواہش کیوں ہے۔

یہ سوال میں خود سے بھی پوچھ سکتا تھا، مگر میرے لاشعور میں شاید اس کا اتنا بھیانک جواب موجود تھا کہ میں نے خود سے ہی اسے چھپائے رکھا، موت ایک بھید ہے اور بھید خود اتنا مہیب اور سیاہ ہوتا ہے کہ اس میں جھانکنے کی ہمت کرپانا بہت مشکل کام ہے، میں خودکشی سے نہیں ڈرتا، موت سے ڈرتا ہوں۔ اور موت تو بہت سے لوگ جیتے جی مرجاتے ہیں، بلکہ مر رہے ہیں۔ اپنے آس پاس دیکھتا ہوں۔ دفتروں کو جاتے ہوئے، کالجوں میں پڑھتے ہوئے، اکیلے یا بھرے پرے گھر کے ساتھ رہنے والے تقریبا سبھی افراد ایک جیسی ہی زندگی گزار رہے ہیں، وہ کیا ان کے باپ دادا اور ان کے بھی آبا و اجداد اسی قسم کی زندگی کے عادی تھے۔

میں نے اس سے بچنے کے لیے اپنی مرضیوں کو قبول کرلیا، اپنی ذات کے سچے اظہار کی طرف میرا رخ ہوگیا، مگر یہ تو اور کرب ناک صورت حال ہوگی کہ اگر میں یہاں سے واپس آکر ان لوگوں میں دوبارہ شامل ہوجاؤں، چنانچہ یہ تو ممکن نہیں، ممکن ہے آگے بڑھنا مگر آگے کوئی راستہ نہیں ہے، خود کو قبول کرلینے کے بعد کوئی دوسرا راستہ ویسے بھی کہاں بچتا ہے اور اب اپنی ہی قبول کی ہوئی زندگی یکسانیت کا شکار لگنے لگی ہے۔ اسے بدلنا ممکن نہیں۔

میں نے تخلیق کے ساتھ جو بے لوث رشتہ قائم کیا تھا، میری ضرورتوں نے اسے بھی زک پہنچائی ہے۔ میں اگر کسی ایسی جگہ ہوتا جہاں مجھے کہانیاں پڑھنے کے لیے، شاعری کی اتھاہ دنیا میں اترنے کے لیے دوسروں کی جیب کی طرف نہ دیکھنا پڑتا تو شاید یہ ممکن تھا کہ میں خود کو بدلتی ہوئی کہانیوں کے دھارے پر ڈال دیتا، وہ مجھے الگ الگ راستوں کی طرف لے جاتیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تب بھی بیزار نہ ہوتا۔ غزل کہتا ہوں تو لگتا ہے کہ اب کسی چنی ہوئی دیوار میں بند زنجیروں سے جکڑا ہوا ایک آدمی مسلسل ایک ہی دیوار سے سر مارے جا رہا ہے، جبکہ اسے پتہ ہے کہ کوئی در نہیں کھلنا۔ شاعری کا مطالعہ خاصے کی چیز ہے وہ آپ کو انسانی ذلتوں سے اٹھا کر ایک نشہ آمیز حوض میں ڈال سکتا ہے، وہاں آپ کسی رنگین مچھلی کی طرح تیر سکتے ہیں، مگر اردو شاعری اس معاملے میں بہت کارآمد نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ان چند افراد کی، جنہیں پڑھنے کے بعد آپ مزید بے چین ہوجائیں گے۔

حالانکہ یہ ممکن نہیں، مگر جب میں خودکشی کی جمالیات وضع کرتا ہوں تو اس میں عورت کا بڑا دخل ہے۔ یعنی میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اگر ایسا کوئی عمل انجام دیا جائے تو اس میں آپ کی شریک کار کوئی عورت ہونی چاہیے، جو آپ کی ہی طرح موت کو زندگی کے منہ پر ایک شدید ردعمل کی طرح مارنے کا حوصلہ رکھتی ہو، جسے غیر ضروری ہمدردیوں، نصیحتوں اور تکلفات سے نفرت ہو۔ جب کبھی میں خود سے پوچھتا ہوں کہ ایسی خودکشی کی کوئی مثال کیا میرے سامنے موجود ہے تو مجھے میراجی کا ہلکا سا خاکہ نگاہوں پر ابھرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ عورت کے بدن کی تلاش میں سرگرداں ضرور رہے، مگر ان کی موت میں عورت کا وجود اسی طرح شامل رہا، جس طرح ان کی زندگی میں اس کی محرومی۔

خالد جاوید کی کہانیوں میں موت کی ایک عجیب دنیا آباد ہے، اس میں بھی خودکشی اور خود لذتی میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ انسانی پستیوں اور ذلتوں کے انبار لگے ہیں، مگر وہ قابل دید ہیں اور وہی زندگی کا ایک ایسا رخ ہیں، جس سے مفر نہیں ہے۔ کوڑھ ہو یازخم، درد ہو یا نفرت، حسد ہو یا کوئی اور ایسا جذبہ جو انسانی قلب کو گرم رکھتا ہے، اس کے لیے ایک کرب ناک مگر پسندیدہ موت کا بہانہ بن سکتا ہے۔ خودکشی کے تعلق سے تب مجھے سوچتے ہوئے بہت لطف محسوس ہوتا ہے، جب میں اسے کسی عورت سے منسوب کرکے دیکھوں، میں ایسی خبروں سے خوش ہوتا ہوں، جن میں خوبصورت ترین ماڈلز یا ایکٹریسز اپنے کمروں میں مردہ پائی جاتی ہیں، ان کے پاس موجود کسی سوسائڈ نوٹ سے مجھے فرق نہیں پڑتا، ان کی موت کے پیچھے موجود شدید نفسیاتی کرب کا بھی مجھے کھوج نہیں لگانا ہوتا ہے بلکہ میری ساری دلچسپی اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ حسن کو بھی انتخاب کی جانے والی موت پسند ہے اور جب عورت، یعنی کوئی خوشبووں، گھنے بالوں، گھنیری پلکوں، گداز بدن اور گرم سانسوں والی عورت تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہو تو اس کا تصور آپ کو خودکشی کی لذت کے اور نزدیک لے جاسکتا ہے۔

اسی وجہ سے موت اور جنس کا باہمی تعلق مجھے بے حد عزیز ہے۔ ویسے بھی میں دنیا کے کسی بھی انسانی واقعے یا حادثے کو جنس سے الگ کوئی معاملہ نہیں سمجھتا، مگر ایسے واقعات جو فی الواقعی جنس سے خالی ہوں، میرے نزدیک تلچھٹ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں میں بے حد بدنصیب سمجھتا ہوں۔ یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں کہ میں کسی روز خودکشی کرلوں مگر خودکشی کے لیے ایسے اوزار کا استعمال میں غیر مناسب سمجھتا ہوں، جن میں خودفراموشی کا عنصر بھی شامل ہو۔

میرے لیے خودکشی کا بہترین واحد ذریعہ عورت ہی ہوسکتی ہے اور میں اسے اپنے قاتل کے روپ میں نہ دیکھتے ہوئے، محسن کے طور پر دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، خواہ وہ مجھ سے نفرت کرکے میرے سینے میں گولیاں ہی کیوں نہ اتار رہی ہو، کسی کے ساتھ مل کر بے وفائی کرنے کے چکر میں میری جان لینے کی فکر کیوں نہ کرے۔ یہ سب باتیں میری وضع کردہ خودکشی کی جمالیات میں اہم مقام رکھتی ہیں، اور میں انہیں سطحی معاملات کی طرح نہیں برت سکتا۔

اس فہرست پر نظر ڈالتا ہوں تو طبعی اور غیر طبعی دونوں قسم کی اموات میرے لیے خودکشی کی بہت سی صورتیں تراشنے لگتی ہیں۔ میں نے جب خودفراموشی کہا تو کہیں آپ یہ تو نہ سمجھے کہ میں شراب کا ذکر کررہا ہوں، حالانکہ مجھے شراب ذاتی طور پر پسند نہیں اور اس کی وجہ میری نفسیات میں موجود شراب کے لیے ایک قسم کی ایسی حرارت ہے، جس نے مجھے اس کی تیزابی بو سے بہت متنفر کردیا ہے پھر بھی ہمیشہ کہتا ہوں کہ میرے غیر پسندیدہ ترین عمل میں کسی عورت کا وجود اسے بے حد یا کچھ حد تک پسندیدہ بناسکتا ہے، بہرحال بات ہورہی ہے شراب کی، جو کہ خودکشی کے موثر ترین ذرائع میں سے ایک بہتر ذریعہ ہے۔

میری نظر میں شراب خودفراموشی کے بجائے، خودشناسی کا انتہائی علم فراہم کرانے والی ایک اذیت ناک شے ہے۔ انسان کو آئنہ اور زمین دکھانے والی وہ چیز، جس سے بھیانک منظر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ شراب پیے ہوئے کسی فرد سے زیادہ شریف آدمی میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھا ہے، وہ ایک سچا اور حق پرست انسان ہوتا ہے، جسے اپنی اور دوسروں کی سرے سے کوئی پروا نہیں ہوتی۔ مگر شراب کے ساتھ مسئلہ دوسرا ہے، وہ خوداذیتی کے ایسے مدارج طے کرا سکتی ہے، جن میں بے پناہ تخلیقی انسان بھی اپنی ذات سے باہر آکر خود کو موت کی آغوش میں ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اور مجھے ایسی قید پسند نہیں ہے۔

بہرحال، خودکشی پر یہ میرے چند الفاظ ہیں، ممکن ہے اسے پڑھ کر آپ کو لگے کہ لکھنے والا بیمار ہے۔ سو بیمار ہی سہی۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).