کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ اور احوال کچھ پرانے بھارتی جاسوسوں کا


پاکستان نے مارچ 2016 میں کلبھوشن کو بلوچستان سے گرفتار کیا۔ ساتھ ہی ایک اعترافی بیان جاری ہوا جس میں کلبھوشن نے کہا کہ وہ انڈین نیوی کے حاضر سروس افسر ہیں اور بلوچستان میں ان کی آمد کا مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات تھی جنہیں بھارت امداد فراہم کرتا ہے۔ کلبھوشن نے پاسپورٹ پر اپنا نام ’حسین مبارک پٹیل‘ ظاہر کیا تھا اور وہ بلوچستان میں ایران کی سرحد سے داخل ہوئے تھے۔ یہ وہ پہلے ہندؤ ستانی جاسوس تھے جو بلوچستان سے گرفتار ہوئے تھے۔

تخریب کاری اور دہشت گردی کے جرم میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے کلبھوشن کو موت کی سزا سنائی تو بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے گیا۔ عالمی عدالت نے رواں برس 18 سے 21 فروری تک اس کیس کی ”عام سماعت“ کی تھی اور اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو کہ کل سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کے اہم نکات درجِ ذیل ہیں۔

1) عالمی عدالت برائے انصاف نے کلبھوشن یادیو کی رہائی کے لیے بھارتی اپیل مسترد کر دی ہے۔

2) عالمی عدالت نے کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔

3) حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ پر پاکستانی موقف درست پایا اور پاسپورٹ کو اصلی قرار دیتے ہوئے جج عبد القوی احمد یوسف نے کلبھوشن کو بھارتی شہری قرار دیاہے۔

4) کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔

5) عالمی عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ ”ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا“، کلبھوشن کو بھی قو نصلر تک رسائی دے دی ہے۔ سا تھ ہی تاکید کی ہے کہ پاکستان اس معاملے میں مکمل تعاون کرے۔

6) آخری نقطہ یہ ہے کہ عالمی عدالت نے پاکستان کی فوجی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی پھانسی کی سزا پر پاکستان کو نظر ثانی کرنے کا کہا ہے۔

چونکہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی ویانا کنونشن کے تحت ملی ہے، اس حوالے سے عالمی عدالت برائے انصاف میں پاکستانی ایڈ ہاک جج جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ویانا کنونشن کسی صورت بھی جاسوس پر لاگو نہیں ہوتا۔ ویانا کنونشن لکھنے والوں نے جاسوسوں کو شامل کرنے کا سوچا بھی نہیں ہو گا۔

عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا اور اس کے ساتھ پاکستان کے قوانین کے مطابق برتا ؤ کیا جائے گا۔

مگر عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کرتا تو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل ہو گا یا نہیں؟ اس سے قبل بھی انڈین جاسوسوں کے مختلف ”کیسز“ سامنے آ چکے ہیں جن میں سربجیت سنگھ کا کیس کافی مشہور رہا۔ سربجیت کو اگست 1990 میں گرفتار کیا گیا۔ بھارت نے اسے نشے میں دھت ہل چلاتے چلاتے غلطی سے سرحد پار کرنے والا کسان قرار دیا۔ پاکستان میں اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ سزا پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے سربجیت سنگھ 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں مارے گئے۔

رویندرا کوشک ایسے جاسوس تھے جو 25 سال پاکستان میں رہے۔ انہیں ”نبی احمد شاکر“ کے نام سے پاکستان بھیجا گیا۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور افوج پاکستان میں کلرک سے ترقی کرتے کرتے میجر کے عہدے تک پہنچے۔ انہوں نے پاکستان میں شادی بھی کی اور ان کا ایک بچہ بھی تھا۔ رویندرا کوشک بھی کئی سال تک جیل میں رہے اور 2001 میں جیل کے اندر ہی فوت ہو گئے۔

جبکہ کشمیر سنگھ ان جاسوسوں میں شامل ہے جسے 1973 میں گرفتار کیا گیا اور 35 سال کی سزا کے بعد 2008 میں رہا کر دیا گیا۔ رام راج بھی چھ برس قید کے بعد رہا ہوئے مگر انہیں بھارتی اداروں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ گربخش رام جو پاکستان میں ”شوکت علی“ کے نام سے جانے جاتے تھے وہ بھی 18 برس پاکستانی جیلوں میں گزار کر 2006 میں رہا ہوئے۔ سرجیت سنگھ بھی 30 سال پاکستانی جیلوں میں گزار کر 2012 میں رہا ہوئے تو ”بھارتی سرکار“ نے اس کا کوئی خاص استقبال نہ کیا۔

کلبھوشن کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ وہ بھی کسی جیل میں ”سزا پر عمل“ نہ ہونے کی وجہ سے مر جائیں گے یا کئی برس کی سزا کاٹ کر رہا ہو جائیں گے۔ ہر صورت میں بھارتی ری ایکشن خاصا دلچسپ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).