کلبھوشن، حافظ سعید، عمران خان اور ٹرمپ


قوم کو مبارکباد دی جارہی ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادو کو بری کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ اس کیس میں کیا کھویا کیا پایا۔

بھارت عالمی عدالت میں گیا کیس کا مدعا تھا؟
” کونسلر رسائی دے جائے پاکستان نے رسائی نہ دے کر عالمی قوانین ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے“

اب اسی کی روشنی میں ہم فیصلہ دیکھیں گے۔ کیونکہ سوال گندم اور جواب چنا والا کنسپٹ اپنا بہت پسندیدہ ہے اس لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی عدالت نے کلبھوشن کی رہائی کی درخواست مسترد کردی ہے۔

اب اس کے نتائج سے پہلے ہم ذرا عالمی عدالت انصاف کا طریقہ کار سمجھ لیں۔ عالمی عدالت برائے انصاف صرف درج ذیل صورتوں میں کیس سننے کا اختیار رکھتی ہے۔
1۔ جب دونوں فریق ( ملک) خود کیس لے آئیں
کیا پاکستان گیا تھا؟ نہیں۔

2۔ دونوں فریقین میں معاہدہ ہوکہ کسی بھی مسئلہ میں عالمی عدالت سے رجوع کریں گے۔
کیا پاک بھارت میں یہ معاہدہ تھا؟ نہیں۔

3۔ وہ ملک جنہوں نے اجازت نامہ دیا ہو۔ کہ عالمی تنازعات میں عالمی عدالت فیصل ہوگی۔ یاد رہے 2017 میں اس کیس سے پہلے صرف 68 ملک یہ اجازت نامہ دے چکے تھے۔
کیا پاکستان نے یہ اجازت نامہ دیا تھا؟
جواب ہے نہیں دیا تھا 2017 تک۔

پاکستان نے یہ اختیار 29 مارچ 2017 کو عالمی عدالت کو دیا جبکہ بھارت یہ اختیار 1974 سے دے چکا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے یہ کلبھوشن کی پھانسی کے اعلان سے کوئی ایک ہفتہ پہلے ہوا، آخر ایسی کون سی وجہ تھی جس کے لئے پاکستان کو اب ایسا کرنا پڑا ظاہر ہے حکومت کے علم میں یہ بات آچکی ہوگی کہ کلبھوشن کو سزا ملنے والی ہے تب اپنے آپ کو عالمی عدالت میں خود کو پیش کرنا جب ضرورت نہ تھی۔ میاں نواز شریف کا یہ قدم بھی عجیب ہی تھا۔

بھارت کا ICJ میں موقف :

کلبھوشن کے معاملے پر انڈیا نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور سفارت کارانہ رسائی اور ویانا کنونشن کی بنیادپر پھانسی کو روکنے کا کہا ہے۔ عالمی عدالت نے 2017 میں پاکستان کو پھانسی روکنے کا کہا تھا۔ اس کے علاوہ دوران پروسیڈنگ انڈین وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ چونکہ کلبھوشن کا ٹرائل ملٹری کورٹس نے کیا یے اور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے تحت فیر ٹرائل نہیں ہوا ہے لہذا یہ سزا کالعدم قرار دی جائے۔

پاکستان کا موقف:
یہ کیس عالمی عدالت کی jurisdiction میں نہ ہے لہذا عالمی عدالت برائے انصاف اس کیس کو سن ہی نہیں سکتی۔

عالمی عدالت کے فیصلے کے چیدہ نکات۔

1۔ بھارت کو کونسلر رسائی ملے گی۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ بھارت اپنا موقف ثابت گیا اور ہم نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔

2۔ کلبھوشن کی پھانسی اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک اس کا ری ٹرائل نہ ہو۔
پھانسی روک دی گئی گئی۔ ری ٹرائل کا مطلب ملٹری کورٹس کا فیصلہ کالعدم۔

3۔ کلبھوشن کی رہائی کی درخواست مسترد کردی گئی۔
عدالت نے بیلنس رکھنے کے لیے یہ درخواست رد کی اور نہ ہی بھارت کا بنیادی اسٹانس یہ تھا کہ رہائی دی جائے۔

بھارت کیا چاہتا تھا۔ کلبھوشن کی پھانسی رکوانا۔ وہ رک گئی۔ ٹرائل دوبارہ ہوگا۔ بھارت دنیا میں واویلا کرے گا کہ دیکھیں پاکستان کا عدالتی نظام اتنا ناقص ہے اور یہاں ملٹری کورٹس کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ماضی میں ”عالمی عدالت انصاف“ کے فیصلوں پر مختلف ممالک کا رد عمل۔

1۔ ایران انقلاب کے بعد امریکن ایمبیسی پر حملے کو ایران حکومتی کی حمایت حاصل تھی اس کے خلاف امریکہ نے عالمی عدالت سے رجوع کیا لیکن ایران نے اس کیس میں آنے سے انکار کردیا اور عالمی عدالت کچھ بھی نہ کرسکی۔

2۔ 1984 میں امریکہ نے سی ائی اے کے ذریعے نکاراگوا میں بارودی سرنگوں کا جال بچھایا جس کے علم ہونے پر نکاراگوا نے عالمی عدالت سے رجوع کیاکہ امریکہ نے عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے ہماری حدودمیں دخل اندازی کرکے، جب عالمی عدالت نے امریکہ کو بلایا تو امریکہ نے کہا ان معاہدوں کی خلاف ورزی کے کیسز عالمی عدالت سن ہی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ امریکہ نے ”کمپلسری“ اجازت نامہ بھی واپس لے لیا۔

کلبھوشن طرز کے کیسز عالمی عدالت انصاف میں اور ان کا انجام

1۔ 1998 میں امریکہ نے ایک پیراگوئے کے باشندے کو سزائے موت دی اس کے جرم کی بنیاد پر، پیراگوئے نے عالمی عدالت سے رجوع کیا کہ اس کے شہری کو ویانا کنونشن کے مطابق کونسلر رسائی دی جائے اور اس کی سزائے موت کو روکا جائے عالمی عدالت نے امریکہ کو ایسے کرنا سے روکا لیکن امریکہ نے اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا اورسزائے موت دے دی۔

2۔ 1999 میں امریکہ میں ایک جرمن شہری جو امریکی شہریت کا حامل بھی تھا ایک ڈکیتی کے دوران ایک شخص کو قتل اور کئی کو زخمی کرنے کا مرتکب ہوا۔ امریکہ نے اس کو پھانسی کی سزا سنائی ایسے میں جرمنی نے عالمی عدالت میں امریکہ کو ایسا کرنے سے روکا اور ویانا کنونشن یاد دلایا لیکن امریکہ نے عالمی عدالت کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا دی۔

پاکستان کیا کرے؟

جو آپ سوچ رہے ہیں وہ کرنا ناممکن ہے۔

اب آتے ہیں ایک اور پہلو سے۔ ایک طرف ہمارے سر پر آئی ایم ایف ہے اور دوسری طرف FATF۔ ان دونوں کو کور کرنے کے لیے ہم نے امریکہ کو افغانستان میں مذاکر ات کے لیے آخری درجے تک اسپورٹ دکھائی جس کا نتیجہ ایک بہترین قدم کی صورت میں نکلا۔ BLA کو ایک دہشت گرد تنظیم ڈکلیر کیا گیا اور کچھ عرصے کے لیے FATF سے ریلیف بھی مل گیا۔

اب چونکہ وزیراعظم عمران خان امریکہ جارہے تھے تو ایسے میں ”حافظ سعید“ صاحب امیر جماعت الدعوہ کو گرفتار کیا گیا تاکہ جانے سے پہلے ہمارے پاس ایک بہترین کارڈ بھی ہو جو بیک وقت امریکہ اور FATF کو مطمئن کرسکے۔ کیونکہ FATF کی حالیہ تجاویز میں سب سے اہم یہ تھی کہ ان گروپس کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف Terror فنانسنگ کی کارروائی کی جائے۔ جس پر CTD کی طرف ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس کے کچھ دن میں گرفتار بھی کرلیا گیا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا۔

اب ایسے میں ”کلبھوشن“ کیس کا فیصلہ آگیا۔ امریکہ میں دوران ملاقات ٹرمپ نے یہ کہہ دیا کہ بھائی کلبھوشن کے معاملہ پر کیا کرنا ہے تو خان صاحب کی حالت دیکھنے لائق ہوگی کیونکہ قطر کے امیر اور ٹرمپ میں کافی فرق ہے۔ یہاں پاکستان کے پاس جو آپشن رہ جاتے ہیں وہ یہ ہے کلبھوشن کو بطور Leverage استعمال کرے۔ اس سے پاکستان اور انڈیا میں ڈائیلاگ کا موثر دور بھی شروع کرایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس پر پاکستان ہمیشہ کی طرح انڈیا سے دو قدم پیچھے نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).