پاکستان کا کون سا وزیرِ اعظم کس کیس میں گرفتار ہوا


وزیر اعظم پاکستان جیل

ذوالفقار علی بھٹو جن کی حکومت کا تحتہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاالحق نے پھانسی پر لٹکا دیا۔

جمعرات کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کی درآمد کے سکینڈل میں گرفتار کر لیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے یہ دوسرے وزیرِ اعظم ہیں جنھیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مجموعی طور پر شاہد خاقان عباسی پاکستان کے چھٹے سابق وزیرِ اعظم ہوں گے جنھیں گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

کون سے وزرائے اعظم پیش ہوئے؟

بھٹو، ضیا اور جی ایم سید

چار اپریل کا وہ دن

نواز شریف کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا

ان کے علاوہ جو وزرائے اعظم کسی نہ کسی صورت میں گرفتار رہے ہیں، ان میں سب سے پہلا نام تو حسین شہید سہروردی کا آتا ہے، پھر ذوالفقار علی بھٹو کا نام ہے، اُن کے بعد اُن کی بیٹی بینظیر بھٹو، کسی زمانے میں ان کے سخت مخالف رہنے والے میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے نام آتے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی جنھیں قطر سے ایل این جی کی درآمد کے سکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

حسین شہید سہروردی

حسین شہید سہروردی کا تعلق بنگال سے تھا۔ پاکستان کی تحریکِ آزادی میں ان کا کافی اہم کردار تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد ان کے مسلم لیگ کی قیادت سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔

مشرقی پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے انھیں ’پاکستان دشمن‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘ قرار دیا تھا۔

طویل سیاسی سفر کے بعد انھیں 1956 کے آئین کے تحت پاکستان کا وزیرِ اعظم بنایا گیا تھا۔ وہ 12 ستمبر 1956 سے لے کر 11 اکتوبر 1957 تک وزیرِ اعظم رہے۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

حسین شہید سہروردی

لیکن اسی سیاسی رہنما کو جنرل ایوب خان کی حکومت کے زمانے میں سنہ 30 جنوری سنہ 1962 کو ایبڈو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں سکیورٹی ایکٹ (1952) کے تحت گرفتار کیا گیا۔

انھیں کراچی کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ جب بنیادی جمہوریت کے انتخابات مکمل ہو گئے تو سہروردی کو 19 اگست سنہ 1962 میں رہا کردیا گیا تھا۔

حسین شہید شہروردی 5 دسمبر سنہ 1963 میں بیروت کے ایک ہوٹل میں پُراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو

پاکستان کے نوویں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر 1977 کو فوج نے مارچ 1974 میں ہونے والے نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

سندھ کے قصبے گھڑی خدا بخش میں بھٹو کی قبر جو اب لوگوں کے لیے سیاسی مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا ٹرائل مقامی عدالت سے شروع کیے جانے کے بجائے لاہور ہائی کورٹ سے شروع کیا گیا جس کی وجہ سے انھیں اپیل کا ایک موقع کم ملا۔

انھیں تقریباً ڈیڑھ سال بعد لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے سزائے موت پانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔

بینظیر بھٹو

ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر جو کہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیرِ اعظم رہیں، اپنے والد کی پھانسی کے بعد مختلف مدتوں کے لیے نظربند اور جیلوں میں قید رہیں۔

انھیں سب سے پہلے چھ ماہ کے لیے جیل میں اور پھر چھ ماہ کے لیے اپنے گھر میں نظربند رکھا گیا۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

بے نظیر بھٹو کو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ وہ 27 دسمبر سنہ 2007 میں راولپنڈی میں ایک جلسے میں خود کش حملے میں ہلاک ہوئی تھیں۔

اپریل 1980 میں انھیں رہا تو کر دیا گیا مگر مارچ 1981 میں ضیاء حکومت نے انھیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا جس کے لیے الذوالفقار نامی تنظیم کی جانب سے پی آئی اے کی فلائٹ ہائی جیک کرنے کو جواز بنایا گیا۔

انھیں اس دوران سکھر جیل میں رکھا گیا اور تین سال بعد 1984 میں رہا کیا گیا۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ ہی انھیں کوئی سزا ہوئی۔

یہ ان کی زندگی کی آخری جیل تھی۔

نواز شریف

تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف کو سب سے پہلے اس وقت گرفتار کیا گیا جب 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

انھیں بھی راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا جس دوران ان پر ہیلی کاپٹر خریداری کے دوران ٹیکس کی عدم ادائیگی، کرپشن، اور طیارہ سازش کیس میں عمر قید، جرمانے اور پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

نواز شریف بد عنوانی کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔

اس دوران مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہ فہد کی درخواست پر پاکستان کی فوجی حکومت نے انھیں اس شرط پر رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ 10 سال تک پاکستان جبکہ 21 سال تک سیاست میں واپس نہیں آئیں گے۔

2007 میں وہ پاکستان واپس آئے اور 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر وزیرِ اعظم بنے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو انھیں ایون فیلڈ ریفرینس میں سزا سنائی مگر وہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے فوری طور پر گرفتار نہیں ہو سکے۔

13 جولائی 2018 کو عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل وہ پاکستان لوٹے جہاں انھیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

فی الوقت وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مقید ہیں۔

یوسف رضا گیلانی

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو فروری 2001 میں نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی 1993 سے 1997 کے دوران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔

وزیر اعظم پاکستان جیل

یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم بنے سے پہلے پانچ برس کی سزائے قید ہوئی تھی۔ لیکن وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے انھیں چند لمحوں کی قید کی سزا سنائی گئی جس کے نتیجہ میں وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہوگئے اور وزیرِ اعظم بھی نہ رہے۔

انھیں جون 2002 میں احتساب عدالت نے پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی جسے ان کی گرفتاری کے دن سے گنا گیا، مگر انھوں نے اپنی سزا مکمل کی۔

سنہ 2012 میں 26 اپریل کو یوسف رضا گیلانی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم قرار پائے جب انھیں توہینِ عدالت کے جرم میں چند لمحوں کی قید کی سزا دی گئی۔ وہ مجرم قرار پائے اور چند دنوں بعد ایک اور عدالت نے اس سزا کی بنا پر انھیں قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا اور وہ وزیرِ اعظم بھی نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp